Wo Doob Marte Hain, Kuch Ziada Ho Gaya
وہ ڈوب مرتے ہیں، کچھ ذیادہ ہوگیا
انور مقصود صاحب نے گذشتہ رات کراچی لٹریری فیسٹیول میں اپنا وضاحتی بیان دے دیا ہے۔ فیک نیوز یہ بھی پھیلائی گئی تھی کہ ان کو اُٹھا لیا گیا ہے۔ خیر، میرے خیال میں انور مقصود کو بات کہنے کی سپیس دینا چاہئیے۔ وہ جو کہنا چاہتے ہیں وہ کہنا ان کا حق ہے۔ نیوی کے شہداء کے متعلق ان کا بیان "وہ ڈوب مرتے ہیں" زیادہ ہوگیا تھا۔ آپ اسے بلنڈر کہہ سکتے ہیں اور اس عمر میں ایسے پکے مزاح نویس و سکرپٹ رائٹر سے اس قسم کے جملے کی توقع نہیں تھی۔ مگر انسان ہے ہو جاتا ہے۔
انور صاحب کی جذباتی وابستگی عمران خان صاحب سے ہے اور یہ ان کا حق ہے وہ جس کو بھی پسند کریں۔ فوج پر تنقید کرنا بھی ہر انسان کا حق ہے، فوج کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ نہ کوئی الہامی کتاب ہے جس کی توہین ہو جاتی ہو۔ البتہ میں مسلسل کہتا ہوں کہ فوج سے نفرت میں اس حد تک نہ جائیں کہ فوجیوں کی شہادتوں کا مزاق اڑانے لگیں۔ عام جوان سے کاہے کا بیر ہے، وہ بھی ہماری طرح کا انسان ہے جو صرف اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہو چکا ہے کہ اوپر والوں کی حرکات کے سبب ہمارا ایک طبقہ اس قدر نفرت میں مبتلا ہے کہ وہ فورسز کی لاشوں پر تو شکر مناتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور جب اپنا ہم خیال یا ہم جماعت مر جائے تو اسے شہید قرار دیتے ہوئے انسانی لاشوں کا مزاق اڑانے پر درس بھی دیتے ہیں۔
اس گھٹیاپن سے جتنا جلد نکل سکیں اتنا ہی جماعت، سماج اور آپ کے لیے اچھا ہوگا۔ اصول ایک ہی اپنائیں ہر انسانی لاش قابل احترام ہے حتیٰ کہ دشمن بھی مرے تو خوشی نہیں کرنی چاہئیے۔ وہ بھی کسی کا بیٹا ہوتا ہے۔ کسی کا بھائی کسی کا والد ہوتا ہے۔ دشمن کی موت پر بھی خاموشی اختیار کرنا انسانیت ہے اور یہی ہر دین کا پیغام ہے۔
جب آپ شہداء کا مزاق اڑائیں گے ری ایکشن میں آپ سے نفرت پیدا ہوگی اور اس کا سراسر نقصان آپ کو ہوگا۔ خدا دا واسطہ یوتھیاپن سے باہر نکلیں۔ انسان بنیں۔ عمران خان حرف آخر ہے نہ اس کے بعد قیامت ہے۔ یہ دنیا لاکھ ہا لاکھ سال سے بس رہی ہے، چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ خود کو ناگزیر سمجھنے والوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ بڑے بڑے پیامبر، سُورما، شہہ سوار، جرنیل، لیڈر، آمر، فنکار، آئے اور چلے گئے۔ نظام قدرت کسی کے لیے ایک لحظہ نہیں رُکا۔ اپنے قائد کی عزت کرو، اس کا پیغام پھیلاؤ، اس کے لیے آواز اُٹھاؤ، اپنے حق کے لیے جو بھی آپ حق سمجھتے ہیں کیجئیے مگر انسانیت سے نہ گریں۔
شعیہ ہو سنی ہو، انصافی یا نونی ہو، فوجی ہو یا سول ہو، پنجابی یا پٹھان ہو، جو بھی ہو جہاں سے بھی ہو جیسے بھی ہو سب سے پہلے انسان ہو اور مذہب انسانیت کی رُو سے سب برابر ہو۔ ہر انسان اپنے اعمال کا خدا کے ہاں جوابدہ ہے۔ آپ کو خدا نے بشر بنایا ہے مُنکر نکیر نہیں بنایا۔ انسانوں کے چھوٹے بلنڈرز کو درگزر کرنا بھی سیکھو اور انسانوں کی موت پر اگر افسوس نہیں کر سکتے تو چپ رہنا سیکھو۔ یہ بددعائیں دینا، بد لیبل دینا، بد خواہش پالنا اور بدزبانی برتنا سراسر منفی عمل ہے اور منفی اعمال خدا کے ہاں قابل گرفت ہیں۔