Welcome Home Papa
ویلکم ہوم پاپا
جب لمبے سفر سے واپسی ہو تو بیگم شاندار استقبال کرتی ہے۔ دراصل وہ مجھے مس کر رہی ہوتی ہے کہ بحث کرنے، اُلجھنے اور دل کی بھڑاس نکالنے والا نمونہ گھر میں نہیں ہوتا سو وہ الفاظ کا ذخیرہ کہاں استعمال کرے۔ کچھ یوں بھی ہے کہ اسے مجھ سے دلی لگاؤ ہے کیونکہ اس کی کائنات کا محور میری ہی ذات ہے۔ والدین گذر چکے، بہن اور بھائی اپنے اپنے گھر والے ہیں۔ اس واسطے اس کا ہنسنا، رونا، بولنا، خاموش ہونا سب میری ذات کے بدولت ہے۔ دوپہر بارہ بجے گھر پہنچا۔
بیگم نے من پسند کھانے بنا رکھے تھے۔ بولی "بریانی، دَم والا قیمہ اور کباب بنائے ہیں۔ ساتھ نمکین لسی بنا دوں جو آپ کو پسند ہے؟"۔ میں نے سُنتے ہی سبحان اللہ کا ورد کیا اور اسے لسی کا کہہ دیا۔ نہا دھو کر کپڑے بدل کر آنے تک کھانا لگا ہوا تھا۔ ساتھ وہ آم کو باقاعدہ ٹکریوں میں کاٹ کر ٹھنڈے کرکے لائی اور یہ کہتے میز پر رکھنے لگی " ابھی اچھے آم نہیں آئے مگر یہ میٹھے لائی ہوں۔ آپ کو پسند ہیں ناں۔ وہاں تو آم نہیں ہوتے ہوں گے"۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ مجھے بھی شدید بھوک تھی۔ میں کھانا کھانے لگا اور ساتھ ساتھ باتیں چلتی رہیں۔ اس نے میرا کپڑوں والا بیگ کھولا اور گندے کپڑے نکال کر الگ کرنے لگی۔ ساتھ ساتھ ٹور کے بارے پوچھتی رہی۔ ایک گرم شرٹ اس کے ہاتھ لگی جو فلیس کی تھی۔ اس نے پہلے وہ غور سے دیکھی، یکایک باتیں کرتے وہ چُپ ہوگئی۔ میں نے خاموشی کا وقفہ نوٹ کیا تو بولا " کیا ہُوا؟"۔
بولی " یہ آپ کی شرٹ پر اتنا لمبا بال کس کا ہے؟"۔ میں نے سُن کر قہقہہ لگایا اور کہا " مجھے کیا پتا کس کا ہے۔ آ گیا ہوگا کہیں سے"۔ اس نے بال کی کھال اُتارتے کہا " یہ دیکھیں۔ گولڈن رنگ کا اتنا لمبا بال اور آپ کو پتہ نہیں؟"۔ اس کی سوالیہ نظروں کو دیکھتے ہوئے میرا لقمہ چھوٹ گیا۔ میں نے پھر کہا " کیا ہوگیا ہے یار، مجھے کیا پتہ کیسے ہے اور کس کا ہے۔ "۔ اس نے پھر میری نظروں کے سامنے لا کر بال لہرایا " دیکھیں اسے غور سے۔ یہ کسی مرد کا بال تو نہیں ہے"۔ اب کے میں نے اسے غور سے دیکھتے کہا " یار، میں اس بال کا ڈی این اے کروانے سے تو رہا اب۔ اور تم کو کیسے پتہ کہ مرد کا ہے کہ عورت کا؟ اور تم کو یہ ایک باریک سے بال سے معلوم ہوگیا کہ سنہرا رنگ ہے۔ وہاں تو ہر ایک کے بالوں کا رنگ گولڈن ہوتا ہے۔ اڑ کے یا کہیں پیکنگ کرتے کسی جگہ سے آ گیا ہوگا۔ "
اب کے اُس نے آنکھیں گھماتے قدرے اونچا جواب دیا " میری آنکھیں ٹھیک ہیں آپ کی طرح نہیں جو کھُلتیں ہی نہیں۔ اور بات بال کی بھی نہیں۔ اس شرٹ پر پرفیوم کونسا لگا ہوا ہے؟ یہ تو آپ لے کر نہیں گئے تھے۔ یہ وہ پرفیوم تو نہیں جو آپ لگاتے ہیں۔ " اس نے یہ بولتے شرٹ میری ناک کے قریب کر دی۔ مجھے یاد آیا کہ سڈنی میں منیب میرا ہمسفر تھا۔ اس نے صبح تیار ہوتے پرفیوم دیا تھا کہ یہ لگا لیں۔ میرا بیگ چونکہ پیک ہو چکا تھا اس لیے میں نے اسی کا لگا لیا تھا۔ بیگم کو یہ ماجرا سناتے ہوئے کہا کہ یہ منیب کا پرفیوم ہوگا۔ اس نے تورنت جواب دیا " منیب کا نہیں مُنی کا لگ رہا ہے۔ باتیں ناں بنائیں آپ اب"۔
میں نے اسے کہا کہ ابھی سڈنی میں رات ہے۔ کچھ دیر میں منیب کو واٹس ایپ کال کرتا ہوں وہ خود بتا دے گا۔ بولی " رہنے دیں یہ ڈرامے۔ آپ مرد لوگ یہ آپس میں سیٹنگ کرکے آتے ہیں کہ کیسے بیویوں کو بیوقوف بنانا ہے۔ سچ سچ بتا دیں بس اور بات ختم ہو جائے گی۔ "۔ اب میں کیا سچ بتاتا؟ کچھ ہو تو بتائے بھی بندہ۔ میں نے اسے کہا کہ جو تم کو لگے وہی ٹھیک ہے۔ اب بس بھی کرو۔ بولی " میں بس کروں؟ اوکے"۔ اور یہ بولتے ہی وہ کٹے ہوئے آموں کا پیالہ اُٹھا کر لے گئی۔ " اب خود کاٹ کے کھائیے گا آپ۔ آئی سمجھ"۔
میں نے اس بائیکاٹ کو غنیمت جانا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بچے سکول سے آنے لگے۔ پہلے بیٹا کمرے میں آیا اور مل کر بولا " پاپا، عمران خان کا اب کیا ہوگا؟"۔ میں نے اسے کہا کہ کاکا، چل تُو یونیفارم بدل جا کر اپنے کمرے میں، عمران خان کا جو بھی ہوگا تجھے پتہ لگ جائے گا۔ باہر سے بیگم کی آواز آئی " حسن، کوئی پاپا سے بات ناں کرے جب تک یہ سچ نہیں بتاتے۔ "۔ حسن نے سُنا اور کمرے سے نکلتے ہنستے ہوئے بولا " بیسٹ آف لک پاپا، عمران خان کی بجائے مجھے اب آپ کی فکر ہے"
اس کے نکلتے ہی بیٹی آئی۔ اس نے سلام لی اور ہنستے ہوئے بولی " ویلکم ہوم پاپا"۔ پھر کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں یونیفارم تبدیلی کو چلی گئی۔ میں نے موبائل اُٹھا لیا۔