Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Waqt

Waqt

وقت

مغرب نے پانچ سو برس پہلے اور جاپانیوں، کوریائیوں، چینیوں نے پچھلے سو سال کے دوران یہ راز پا لیا کہ وقت کو طاقت میں کیسے بدلا جا سکتا ہے۔ ہنرمندی و تعلیم سے بے وقعت وقت کو قیمتی کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ اسے پیداواری دولت کی شکل کیسے دی جا سکتی ہے۔ وسائل قلیل ہوں یا نہ بھی ہوں تو بھی وقت کو وسائل کا متبادل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

وقت کو سرمایہ سمجھنے والے ممالک میں باقاعدہ حساب رکھا جاتا ہے، کہ قوم نے اجتماعی طور پر کتنے پیداواری گھنٹے برتے یا ضائع کیے اور اس اسراف کو اگلے ہفتے، مہینے یا برس میں کیسے کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے کبھی غور فرمایا کہ انگریز نے برِصغیر کے ہر اہم شہر میں گھنٹہ گھر کیوں بنوائے تھے؟ جب پہلی جماعت میں داخل ہوئے تو کلاس روم کی دیواروں پر موٹا موٹا خوشخط لکھا پاتے تھے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں، وقت کی قدر کرو، وقت بڑی دولت ہے، آج کا کام کل پر نہ ٹالو وغیرہ وغیرہ۔

ہو سکتا ہے یہود و ہنود خصوصی طور پر پاکستانیوں کے ازلی دشمن ہوں مگر کیا یہ بھی اغیار کی سازش ہے کہ ہم اپنے ذمے لگا کام بھی وقت پر مکمل نہ کر پائیں؟ کسی بھی شادی غمی میں وقت پر پہنچنے کو بے وقوفی سمجھیں؟ کسی بھی بڑے یا چھوٹے منصوبے کی ڈیڈ لائن ہمارے لیے مقدس نہ ہو؟ امپورٹ ایکسپورٹ کا کوئی بھی آرڈر یہ جانے بغیر لیتے چلے جائیں کہ یہ بر وقت مکمل نہ ہو سکا تو بے عزتی ہو گی۔

یہ بھی ہماری سوچ نہیں کہ زیادہ سے زیادہ سرگرمی اور کاروبار دن کی روشنی میں کریں تاکہ توانائی اور وسائل اگلے روز کام آ سکیں اور دنیا بھر میں ڈے لائٹ سیونگ جیسا ایک عمل بھی مہذب قوموں نے اپنایا ہے یہ بھی کسی چڑیا کا نام ہوتا ہے۔

آپ کسی سے بھی وقت مانگ کے دیکھ لیں اکثر یہی سننے کو ملے گا شام کے بعد جب چاہے مل لو، صبح آجاؤ۔ بس والے سے پوچھیں کتنے بجے چلے گی؟ جواب ملے گا ایک آدھ گھنٹے میں۔ وزیر سے پوچھیں یہ منصوبہ کس تاریخ تک مکمل ہو گا، وہ کہے گا سال چھ مہینے میں۔ اگر اصرار کریں کہ اندازاً کس تاریخ تک؟ تو وہ الٹا آپ سے پوچھ سکتا ہے کہ پاکستان میں رہتے ہو یا فرانس میں؟

قوم کے غم میں مرا جانے والا ہر رہنما کیسی آسانی سے کہہ کر جان چھڑا لیتا ہے کہ ہمارے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ راتوں رات سب ٹھیک ہو جائے۔ مگر کتنے لوگ جانتے ہیں کہ وقت ہی دراصل الہ دین کا چراغ ہے، اور یہ چراغ سب کے پاس ہے لیکن شعور کم کم ہے۔ چونکہ وقت ہی سیدھا نہیں ہو پا رہا اس لیے کچھ بھی سیدھا نہیں ہو پا رہا۔

حیرت ہے جس ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے ہو، جہاں افرادی قوت کی کمی نہ ہو، وہاں اکثریت کے پاس فرصت ہی فرصت ہے۔ یہ کوئی المیہ ہی نہیں کہ صبح سے رات تک ہر قصبے اور بستی کے چائے خانے اپنا کام کسی اور پر ڈالنے والے ویہلے لوگوں سے کچھا کھچ بھرے رہتے ہیں۔ دن باتوں، تبصروں، ٹی وی اور غیبتوں میں گذر جاتا ہے اور رات کی قبر سے اٹھنے والا ایک نیا دن پھر سے سب کو دبوچ لیتا ہے۔ دن دبے پاؤں مہینوں اور برسوں اور عشروں میں بدلتے جاتے ہیں اور خواب میں ترقی کے عادی لوگوں کی اکثریت سے قبرستان بھرتے جاتے ہیں۔

بے دلی کیا یونہی دن گذر جائیں گے

صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے۔

Check Also

Aap Afghano Ko Khareed Nahi Sakte

By Javed Chaudhry