Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Utopia

Utopia

یوٹیوپیا

آئیڈل معاشرے کو یوٹیوپیا کہا جاتا ہے جو کرہ ارض پر تاحال کہیں وجود نہیں رکھتا۔ ہر معاشرہ خوبیوں و خامیوں کا مرکب ہے۔ یورپ کی تہذیب سے گریٹ امریکا تک، انڈونیشیا کی مالدار ریاست سے جزائر افریقہ کی کسمپرسی تک، ساری دنیا میں بستے لوگوں نے مل کر اپنے معاشرے کو زندہ مثالی وجود میں ڈھالنے کی کوشش تو کی ہے مگر پرفیکشن وجود میں نہیں آ پائی۔

شاید انسان کا خمیر تضاد سے اُٹھا ہے۔ وہ جنت میں رہتے بھی بیتاب رہا اور من و سلویٰ کے نازل ہوتے بھی ناشکرا تھا۔ اسی اندرونی اضطرابی کیفیت نے انسان کو یوٹیوپیا نہیں بننے دیا۔ اسی واسطے وہ جنت کی تلاش میں پھرتا ہے جہاں اس کا من چاہا معاشرہ ہوگا۔ اسی واسطے ہر مذہب نے جنت کا تصور دیا ہے۔ دنیا فانی ہے۔ دنیا لاحاصل کی عملی تفسیر ہے۔

مگر یہ بھی قانونِ فطرت ہے کہ کسی بھی کالے، گورے، گندمی معاشرے میں اگر توازن نہ رہے تو وہ بکھر جاتا ہے اور اس کی جگہ ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے جو قدرے متوازن ہو۔ کہیں خوبیاں نمایاں اور خامیاں ڈھکی چھُپی ہیں تو کہیں خامیاں ظاہر اور خوبیاں پردہ نشین ہیں۔ یہ دنیا ایسے ہی چلتی ہے۔ خوبیاں ہی خوبیاں یا خامیاں ہی خامیاں رکھنے والے معاشرے کا وجود اس دنیا میں نہیں ہے۔ نہ شاید معلوم انسانی تاریخ میں کبھی رہا ہے۔ جاپانی معاشرے کا ایک دلکش پہلو وہاں کا رکھ رکھاؤ یا احترام آدمیت ہے جسے مشرقیت بھی کہا جا سکتا ہے۔

کسی بھی ملک کی خوبصورتی مجھے وہاں کے باشندے اور ان کا کلچر (رہن سہن) لگتی ہے یا پھر قدرتی مناظر۔ باقی عمارات و دیگر مادی اشیاء تو اب پوری دنیا میں ایک سی محسوس ہوتیں ہیں۔ یہ دنیا اب برانڈڈ ہے۔ گلوبل ویلج ہے۔ جاپانی معاشرے نے مجھے اس لیے متاثر کیا کہ وہاں کا رکھ رکھاؤ ایسا ہے کہ صاف انکار نہیں کیا جاتا، بلکہ اشاروں کنایوں میں بات کی جاتی ہے۔ عموماً "نہیں" کی بجائے "ذرا" کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یا پھر "تھوڑا سا مشکل ہے"۔ وہاں بچوں کو No لفظ سکھانا مشکل ہے۔ یہ ان کی ڈکشنری میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ جب بچوں کو No کہنا سکھایا جاتا ہے تو وہ اس کو بھی "ہاں، مگر نہیں" کہتے ہیں۔ سیدھا نہیں کہنے کا تصور جاپانیوں میں نہیں ملتا۔

خدا حافط کہنے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ "سائیو نارا" ہے۔ جس کا مطلب ہے "اگر یہ ہونا ہی ہے"۔ یعنی جُدا ہونے کا دُکھ اتنا ہے کہ پورا فقرہ بھی نہیں کہا جاتا۔ بلکہ اشارۃً یہی کہا جاتا ہے "اگر یہی قسمت ہے"۔ جدائی یا بچھڑنے کا لفظ زبان پر نہیں لایا جاتا۔ جاپانی کیسی تہذیب کے اوجِ کمال پر ہیں کہ بس اتنا کہہ دینا ہی کافی ہوگا کہ جاپانی زبان میں مرد و زن کے جنسی عمل کے لیے کوئی لفظ ہی نہیں ہے اور اشاروں کنایوں یا استعاراتی الفاظ کو برتتے ہوئے اس کا ذکر آتے ہی جاپانی لوگ حقیقتاً شرم سے سرخ ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر فیصل ہیروشیما شہر میں عرصہ بیس سال سے بس رہے ہیں۔ جاپانی بولتے ہیں، جاپانی پہناوا اوڑھتے ہیں، جاپانی کھانا کھاتے ہیں مگر اس قدر وطن پرست ہیں کہ جاپانی شہریت کے واسطے کب کے اہل ہو چکے مگر پاسپورٹ نہیں لیا۔ آج بھی سبز پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ پاکستان سے کوئی ادبی یا سماجی شخص آ جائے تو اس کے ساتھ وقت گزارنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ بات چلی تو کہنے لگے کہ مجھے اپنے لوگوں سے وطن کی خوشبو آتی ہے۔ جاپان میرا ٹھکانہ ہے۔ پاکستان میری دھرتی ہے۔

اپنے آغاز کے دنوں کا قصہ سنایا "میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے یہاں آیا تو ان دنوں مجھے پیانو بجانے کا بہت شوق ہوتا تھا۔ یہاں مجھے سونی کی ایک پیانو سستے ترین داموں مل گئی۔ اس کا ملنا میرے دیرینہ خواب کی تعبیر کے مترادف تھا۔ اسی شب میں خوشی خوشی اپنے فلیٹ میں پیانو بجانے لگا۔ کچھ دیر گزری۔ ہمسائے میں سے ایک جاپانی شخص آیا۔ دستک دی۔ دروازہ کھُلتے ہی بولا "آپ بہت اچھی پیانو بجاتے ہیں" اور واپس لوٹ گیا۔ دوسری شب بھی یہی ہوا۔ تیسری شب جب وہ پھر آ کر میری تعریف کرنے لگا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔

اگلے روز میں نے اپنے جاپانی پروفیسر کو فخر سے بتایا کہ میں پیانو بجاتا ہوں اور ایک ہمسایہ میرا فین ہوگیا ہے۔ روز مجھے کہنے آ جاتا ہے کہ تم بہت اچھا بجاتے ہو۔ یہ سُنتے ہی جاپانی پروفیسر کے چہرے کے تاثرات بدلے۔ مجھے بولے "مسٹر فیصل، وہ دراصل شکایت کر رہا ہے کہ رات کو میں ڈسٹرب ہوتا ہوں اس وقت پیانو مت بجایا کرو۔ یہ ہمارا مزاج ہے کسی کو صاف منع نہیں کرتے اور کسی کی دل آزاری سے از حد اجتناب برتتے ہیں"۔

اس معاشرے کی اخلاقیات ترتیب دینے میں مذہب کا بھی کردار رہا ہے۔ جاپان میں سب سے بڑا مذہب شِنتو ہے اور دوسرا بڑا بُدھ مت۔ یہ دونوں مذاہب اور ان کے ماننے والے آپس میں یکجان ہو کر چل رہے ہیں۔ ایک ہی گھر میں کچھ افراد شنتو مذہب کے فالورز ہوں گے اور وہیں کچھ بُدھ مت کے۔ کبھی کبھی دونوں مذاہب میں تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جاپان کے قوانین بھی تہذیب و تمدن سے اس طرح اخذ کیے گئے ہیں قانوناً جرم عمل کو اخلاقی اعتبار سے بھی گناہ سمجھا جاتا ہے اور قانون جس عمل کو سراہتا ہے اسے ثواب سمجھا جاتا ہے۔

سنہ 2011 کے تباہ کن سونامی نے جاپان کو ہلا کر رکھ دیا۔ سارے ملک کا پاور سٹرکچر درہم برہم ہوگیا۔ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے تمام بڑی کمپنیوں اور انڈسٹری سے پندرہ فیصد بجلی کم استعمال کرنے کی اپیل کی۔ بصورت دیگر حکومت کا لوڈ شیڈنگ کرنے کا ارادہ تھا۔ حکومتی اعلان کے بعد جاپانی قوم نے بجلی کا استعمال رضاکارانہ طور پر اتنا کم کر دیا کہ بجلی کی کھپت میں بیس فیصد کمی واقع ہوگئی۔ پیداورا کی کمی خود بخود پوری ہوگئی اور لوڈشیڈنگ کی نوبت نہیں آئی۔

جاپان سے میرا پہلا تعارف سنہ 2018 میں بیجنگ چائنہ کے دورے پر وہ جاپانی ماں جی بنیں تھیں جو اتفاقاً مجھے مل گئیں تھیں۔ سارا دن کیمرا بیگ کا بوجھ ڈھوتے چلتے شام ہونے آئی تو میں تھک چکا تھا۔ سڑک کنارے اک بنچ پر بیٹھ کر ٹریفک کی روانی دیکھنے لگا۔ ایک جاپانی ادھیڑ عمر عورت کیمرا تھامے بنچ پر آ بیٹھی۔ کینن کے مہنگے ترین کیمرے کے آگے کینن کا مہنگا لینز گیارہ چوبیس ایم ایم لگا تھا۔ خاتون نے سر ہلا کر ہیلو کہا تو میں نے بھی سر ہلا کر جواب دے دیا۔ خاتون کی عمر لگ بھگ ساٹھ سال ہوگی۔ انگریزی اس کی بہتر تھی۔

بات شروع ہوئی تو کہنے لگی کہ پچھلے چار سالوں سے اس کو فوٹوگرافی کا شوق ہوا اور اتنا شوق ہوا کہ کیمرا لئے وہ ملکوں ملکوں اکیلی گھومی۔ خاوند کا انتقال ہو چکا۔ بچے بڑے ہو کر بچھڑ گئے یعنی اپنی اپنی فیملی والے ہو گئے۔ ایک جاپان کے کسی شہر میں بزنس کرتا ہے۔ سب سے چھوٹا کینیڈا چلا گیا۔ اب کیمرا ہے اور سفر ہے۔ اسی سے دل بہل رہا ہے۔ اسی سے زندگی کٹ رہی ہے۔

مجھے اس بزرگ خاتون پر بہت پیار آنے لگا۔ میں نے کہا کہ ماں جی چلیں یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ٹیمپل آف ہیون ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ جنت کا راستہ اسی سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہاں چل کر فوٹوگرافی کرتے ہیں۔ ابھی شام کی سنہری کرنیں ٹیمپل پر پڑ رہی ہوں گی۔ خاتون خوشی سے اٹھی اور ہم ساتھ چلنے لگے۔ ٹیمپل پہنچ کر ایک آدھ تصویر لی۔ شام ڈھل گئی تو واپس سب وے اسٹیشن پر پہنچے۔ خاتون نے کہیں اور جانا تھا۔

جب گڈ بائے کا وقت آیا تو میں نے روایات کے مطابق ہاتھ آگے بڑھایا۔ خاتون نے ہاتھ تھاما۔ اس کی گول جاپانی آنکھیں تبسم کے ساتھ پھیل گئیں۔ پرس کھولا اور چاکلیٹ نکال کر مجھے دیتے ہوئے کہنے لگی کہ جاپان میں کسی کو گڈ بائے نہیں کہا جاتا۔ جب جانا ہو تو اپنے عزیزوں کو، بیٹوں کو، بیٹیوں کو میٹھی چیز کھلا کر رخصت کرتے ہیں۔ یہ چاکلیٹ تم کھا لو۔۔ اس شفقت سے مجھے مرحومہ ماں یاد آ گئی۔ میں جب سفر پر نکلتا وہ چاکلیٹ تو نہیں دیتی تھیں مگر ماتھے پر چاکلیٹی بوسہ ضرور دیتی تھیں۔

ایک مسافر کی طرح میری بھی فطری خواہش ہے جو کسی بھی معاشرے کی کوئی بھی خوبی دیکھ کر دل میں از خود پیدا ہوتی ہے کہ یہ خوبیاں میرے معاشرے میں بھی پروان چڑھتیں۔ میں اس تاثر سے متفق نہیں ہوں کہ ہمارا معاشرہ نری خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ بلکہ پوری دیانتداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ ہم میں کئیں خوبیاں بھی ہیں جو انمول ہیں۔ دیدہ دلیری، مشکل وقت میں اہلیان وطن کی جانب سے مصائب زدہ اہلیان وطن کی خدمت کا تن من دھن سے جذبہ۔ میں اپنے دانشور دوستوں کی اس بات سے بھی قدرے اختلاف رکھتا ہوں کہ معاشرے سے خرابیاں ختم کرنے سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ خرابیاں ختم کرنے سے خوبیاں جنم نہیں لے لیتیں بلکہ خوبیاں پیدا ہونے سے خامیاں اگر مکمل ختم نہ بھی ہوں تو دب ضرور جایا کرتیں ہیں اور پھر لکھتے ہوئے حضرت علی کا ایک اور قول یاد آ رہا ہے۔

"معاشرہ کفر کے نظام سے چل سکتا ہے لیکن ظلم کے نظام سے نہیں چل سکتا"۔

ہمارا مسئلہ دھونس، ظلم و زیادتی ہے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ آئیڈیل معاشرہ صرف یوٹیوپیا میں ہی وجود رکھتا ہے مگر کم سے کم اتنا تو کیجیے کہ اس معاشرے میں بسنے والے کو آگہی عذاب نہ لگے۔

جہاں ترجمانی ہو جھوٹ کی، جہاں حکمرانی ہو لوٹ کی
جہاں بات کرنا محال ہو، وہاں آگہی بھی عذاب ہے

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari