Udasi Safar Se Ibaarat Bhi Hai
اُداسی سفر سے عبارت بھی ہے

میرا یقین ہے جہاں جہاں بھی انسان کے قدم پہنچے ہیں وہ اپنی خوشبو اور آہٹ پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہی وہ ورثہ ہے جو فطرت کو انسان سے ملا ہے۔ ایک اُداس کر دینے والی خوشبو جو کھنڈروں، پرانی جگہوں، ویرانوں، پہاڑوں، صحرائی زمینوں، بے چراغ گھروں، معبدوں، مقبروں اور بھُلائی ہوئی گزرگاہوں سے پھُوٹتی رہتی ہے۔ دل کی دھڑکن تیز کر دینی والی آہٹ جو اُجاڑ بیاباں میں آدمی کو پیچھے مُڑ کر دیکھنے پر اُکساتی ہے۔ اس خوشبو اور آہٹ میں عبرتوں و ہجرتوں کا فسانہ ہے، اسی لئے اُداسی بھی۔
اُداسی سفر سے عبارت بھی ہے۔ سفر میں یہ غالب رہا کرتی ہے۔ میں ان سارے میں پھیلی خوشبو اور آہٹ کو قید کرنا چاہتا ہوں مگر یہ کون کر سکا ہے؟ مناظر کے درمیاں چلتا میں کیمرے کی آنکھ سے سب دیکھتا رہتا ہوں مگر سوائے لمحوں و رنگوں کے اور کچھ قید نہیں کر پاتا۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ ہوگا۔ میرے ہاں تو سفر وسیلہ خبر ہے، نامعلوم کی خبر۔ دراصل یہ سفر ہے ہی ایسی چیز کہ ایک دفعہ آدمی چل کھڑا ہو تو پھر لَوٹتا نہیں۔ صبح ہو یا شام، دفتر ہو یا گھر، میں سفر کے خواب بُنتا رہتا ہوں۔ یہ میرے واسطے دل بہلانے کا طریق بھی ہے اور کبھی کبھی تلخ زمینی حقائق سے عارضی فرار کی راہ بھی۔ کبھی کبھی انجان اور اَن دیکھی زمینوں کے خاکے از خود میرے خیالات میں بننے لگتے ہیں اور جب میں ان کی کھوج میں ان کی جانب سفر پر نکل جاتا ہوں تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ جیسا وجدان کی آنکھ سے دیکھا یہ تو بالکل ویسا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
نارتھ یورپ میں بسنے والے ایک دیوتا اوڈن کو مانتے تھے جس کے ساتھ ہمیشہ دو کوے اُڑتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی اپنا وجود اوڈن لگتا ہے۔ کوا، آپ کو پتہ ہے مستقبل کی خبر دیتا ہے۔ کیا آیا اور کیا آنے والا ہے۔ کیا آیا اُس کی جھلک آپ کو میری تصویروں سے مل جاتی ہے۔ کیا آنے والا ہے؟ وہ ذہن میں نئے سفر کے خیال بُنتے چلتا رہتا ہے۔
آج کا دن ایک عام سا سفری دن تھا مگر یکایک اداسی میں ڈھل گیا ہے۔ ایٹمی حملے کی تباہ کاریوں کو دیکھنے میوزیم میں چلا گیا۔ میں تو ایک حصہ ہی وزٹ کر پایا۔ مجھ سے اندر رکا نہیں گیا۔ مجھے لگتا ہے حساس دل انسانوں کو یہ میوزیم بُری طرح ڈسٹرب کر دیتا ہے۔ اندر مرنے والوں کی یادگاریں ہیں، جھلسے ہوئے کپڑے، پگھلے ہوئے جوتے اور بستے، ٹوٹا ہوا چشمہ، ٹوٹی ہوئی سائیکل اور ان بچوں و بڑوں کی تصاویر جن کی یہ اشیاء تھیں۔ عرفان ستار کی غزل سے دو اشعار یاد آ گئے ہیں۔
چپ ہے آغاز میں، پھر شورِ اجل پڑتا ہے
اور کہیں بیچ میں امکان کا پَل پڑتا ہے
ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی اُبل پڑتا ہے
میوزیم سے نکل کر باہر آیا اور سگریٹ پینے کی جگہ تلاش کرنے لگا۔ آخر ایک کونہ مل گیا۔ وہاں ایک برطانوی کپل سگریٹ نوشی میں مصروف تھا۔ مجھے دیکھ کر مرد بولا کہ میوزیم کا وزٹ بہت بھاری لگتا ہے۔ میں دیکھ رہا تھا تم ہم سے آگے کیمرا اٹھائے ویڈیو بنا رہے تھے۔ ہم سارا نہیں دیکھ پائے اور باہر آ گئے۔ تم بھی شاید سارا نہیں دیکھ پائے؟ میں نے ان دونوں کو دیکھ کر کہا " ہاں، میں بھی جلدی باہر آ گیا، اندر بہت غمزدہ تصاویر ہیں۔
"۔ پھر معلوم ہوا کہ دونوں برطانوی ہیں۔ مرد باتونی تھا۔ مجھ سے جاپان کے ٹور بارے پوچھنے لگا کہ کہاں گیا ہوں یا کہاں جاؤں گا۔ میں نے سگریٹ سلگایا اور کہا " دیکھو، یہ ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ تو یکدم چھ اگست سنہ 1945 کی صبح پانچ منٹ میں پگھل جھلس کر مر گئے۔ غزہ میں اکتوبر 2023 سے آج کی تاریخ تک پچاس ہزار بچے اور بڑے روزانہ کی بنیاد پر تڑپ تڑپ کے مرے ہیں۔ کیا تمہیں نہیں لگتا وہ ہیروشیما سے بڑی ٹریجڈی ہے؟"۔
دونوں نے میری بات سُن کر فوراً میری تصدیق کی اور مرد بولا کہ یہ آج کے دور کا سب سے بڑا ظلم ہے جو اسرائیل کر رہا ہے۔ کہنا تو میں یہ بھی چاہتا تھا کہ اس مسئلے کی جڑ میں تمہارا ملک برطانیہ ہے جس نے بنیاد رکھی تھی مگر وہ دونوں ٹورسٹ تھے اور اظہار افسوس بھی کر رہے تھے اس لیے ان کو شرمندہ کرنا مناسب نہیں لگا۔
بارش ہے، بھیگا ٹھنڈا دن ہے۔ جاپان میں دو دن مزید ہیں۔ پتہ نہیں یہ اداسی کی نذر ہوں گے یا جی کہیں بہل جائے گا۔ زندگی میں نے بھرپور گزاری ہے۔ آلام کا سامنا کیا ہے تو ڈٹ کر کیا ہے۔ آسودگی میسر ہوئی تو رب کا شکر ادا کیا ہے۔ ہر حال میں جینے، آگے بڑھنے اور چلتے رہنے کو مقصد حیات سمجھا۔ کبھی لائٹ موڈ تحاریر کی صورت ڈارک ہیومر لکھ دیا کبھی تحریر کڑوی و تلخ بھی ہوگئی۔ یہاں ڈارک ہیومر کون سمجھتا ہے۔ اس لیے دوست احباب بس ہنس دیتے ہیں۔ اچھا ہے۔ جو پل ہنس کے بیت جائیں وہی سرمایہ حیات سمجھو۔ کچھ لوگ میری تحاریر سے دانش تلاش لیتے ہیں اور کچھ کو بس مزاح نظر آتا ہے۔ چلو، جس کو جو بھی ملتا ہے لے لے۔ جو کوئی جو سمجھتا ہے سمجھتا رہے۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ اظہار کے واسطے مجھے جو معاشرہ ملا ہے میں اسی کے مزاج میں ڈھل نہیں سکا۔ جو دل میں سمایا وہ تحریر کی صورت سامنے رکھ دیا۔
باقی سفر ہے۔ ایک دن تمام ہونا ہے۔ مجھ سمیت ہر انسان نے اپنی ساری عقل و دانش سمیت دنیا سے کُوچ کر جانا ہے۔ سٹیج ہمیشہ سجا رہتا ہے۔ نئے لوگ آپ کی جگہ لیتے ہیں۔ شو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ کوشش کی ہے جب تک سانس کی ڈور ہل رہی ہے زندگی کو بسر کر لوں۔ گزاروں نہیں۔ مالک کی یہی عطا بہت ہے کہ اس نے مجھے زندگی بسر کرنے کے ڈھنگ تعلیم کر دیے ورنہ کروڑ ہا کروڑ لوگ صرف صبح سے شام، شام سے رات اور رات سے صبح کے چکر میں زندگی گزارتے ہیں۔ میں دن رات کے چکر میں بھی اپنے سفروں کے دھیان لگا رہتا ہوں۔
حجرۂ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل
دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اُچھل پڑتا ہے

