Sirf Tasveerain Hi Nahi Bolti
صرف تصویریں ہی نہیں بولتیں
میرے کمرے کی دیواروں پر میری تصویریں لگی ہیں جو پچھلے پندرہ سالوں سے میرے جنون کی عکاس ہیں، میں جب کمرے میں ان کے بیچ کھڑا اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو گزرے ہوئے ماہ و سال، سفر میں بیتے لمحے، جلتی دوپہریں، ٹھنڈی شامیں، سُلگتی راتیں، چاند کی وارداتیں، بچوں کی ہنسی سب ایک ٹائم لیپس فلم کی صورت میرے ذہن کے پردے پر چلنے لگتے ہیں کبھی کبھی تو تصویریں سچ میں باتیں کرنے لگتی ہیں اور کہتی ہیں تم نے ہمیں قید کیا ہمیں اس فریم سے رہائی دو اور خود بھی ہماری یادوں سے آزادی پاؤ۔
مجھے وہ منتر بھول گیا ہے جس کو پڑھ کر میں ان منظروں اور مجسم لوگوں کو رہا کر سکتا۔ میرے خدا نے مجھے صرف قید کرنا سکھایا تھا۔ میرے لئے یہ بھی ایک دل پر پتھر ہے کہ روز دکھ سکھ کے دنوں کو خیال میں لا کر اداس ہو جاؤں۔ ایک نگر کی بچی کی ہنستی تصویر ہے جس کی آنکھوں کی پُتلیوں سے اس باغ کا عکس نظر آتا ہے جہاں وہ کھڑی تھی، جو کہتی ہے کہ آؤ ہمارے ساتھ کھیلو اور میں نمزدہ آنکھوں سے جواب دیتا ہوں کہ کھیلنے کی عمر تو اب خواب ہوگئی۔ "اب تو نہ جنوں ہے نہ سکوں ہے یوں ہے"۔
بدلتے موسموں کی دلداری اور بیتے شب و روز کی دل آزاری دونوں پر یقین کرنے کے لئے کبھی کبھی بھولی بسری یادوں کو چھُو لینا بھی اچھا ہے۔ میرے پاس ایک یہ حیلہ بھی تو ہے کہ لوگ میری ذاتی زندگی کے بارے بھی پوچھتے ہی رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے میں بڑی باقاعدگی سے ڈائری لکھتا تھا۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلتا اور لفظوں میں سانس لیتا۔ جذبوں کو پہچاننا ابھی نہیں سیکھا تھا مگر ہاں جو وہ روز و شب جو میرے اندر ہی طلوع و غروب ہوتے ان کا حساب درج کرتا جاتا۔
سید قبیلے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے میرے آنگن میں تب اذانوں کے اجالے تھے، دعاؤں کے سویرے تھے مگر طاقوں میں روایات کے بُت بھی سجے ہوئے تھے جو ہر چیز سے برتر تھے۔ اصول تھے ایسے کہ جن کو توڑنا خدا کے حکم کو جھُٹلانے جیسا تھا۔ زمین و جاگیر تھی مگر خاندانی جھمیلوں کی وجہ سے نسل در نسل مقدمہ بازی منتقل ہوتی چلی جاتی۔ اور آخر میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ ہر فریق اپنے آپ سے ہی پچھتاوے میں دست و گریباں ہُوا۔ میں پہلا باغی تھا جس نے اپنے قبیلے پر پتھر پھینکا اور پھر مجھے دربدر ہونا پڑا۔ رشتے دار چھوٹے تو ڈائری بھی چھوٹ گئی۔ پاؤں میں سفر کے بھنور پڑے تو ہاتھ میں کیمرا بھی آ گیا۔
کچھ دن قبل پرانے کاغذات اور ڈائریوں کی زنبیل دیکھی تو پتہ چلا کہ یہ ردی کا تھیلا بھی بولتا ہے، صرف تصویریں ہی نہیں بولتیں۔
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے، اماں کے تھے ہی نہیں
اس گلی نے یہ سن کر صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں۔