Sifarti Mahaz Ko Bhi Fatah Kijye
سفارتی محاذ کو بھی فتح کیجئے

بھارت نے بین الاقوامی سطح پر اپنا تشخص بحال کرنے اور مؤقف پہنچانے کے لیے سات کل جماعتی ٹیمیں بنا دی ہیں جو مختلف ممالک کا دورہ کرکے دہشت گردی کے خلاف بھارت کے موقف کو اجاگر کریں گے۔ اس سلسلہ میں ایک وفد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان سے بھی ملاقات کرے گا۔ ایک وفد میں پانچ ارکان پارلیمنٹ شامل ہوں گے۔ 7 وفود کے بیرون ملک دورے 23 یا 24 مئی کو شروع ہونے کا امکان ہے۔
کانگریس پارٹی کے ششی تھرور کو اس سلسلے میں اہم ذمہ داری دی گئی ہے۔ مودی سرکار نے اپنا وزیر خارجہ جے شنکر سائیڈ لائن کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ مودی سرکار نے اپنے چھ شہریوں کو پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے جن میں ایک ٹریول ویلاگر لڑکی جیوتی ملہوترا ہے۔ اس لڑکی کا قصور یہ ہے کہ وہ ماضی میں دو بار پاکستان کا وزٹ کرکے ٹریول ویلاگز بنا چکی ہے۔
تو یہ ہے اس ملک کی صورتحال جو دعویٰ کرتا ہے اس نے پاکستان کو دھول چٹا دی ہے۔ بدحواسی بام عروج پر ہے۔ عقل ٹھکانے آنے کے بعد بھارتی انٹیلیجنشیا مودی پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ فرسٹریشن کا گراف بڑھتا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں یومِ تشکر منایا جا رہا ہے۔ بھارت کو لے کر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ نارمل حالات ہیں جیسے اس ملک کے نارمل ہوتے ہیں (گوکہ میری نظر سے آئینی، سیاسی و سماجی سطح پر چھ دہائیوں سے ابنارمل ہی ہیں)۔ یہاں یہ عرض کرنا چاہوں گا پاکستان اس برتری کی خوشی میں اپنے سفارتی محاذ کو نظرانداز نہ کرے۔ فوراً اپنے سفارتکاروں کو پالیسی گائیڈلائز بھیجی جائیں اور ان کو متحرک کیا جائے۔ بھارتی بیانئیے کو کاؤنٹر کیا جائے۔ ہمیں بھی اپنے سپیشل سفارتی وفود تشکیل دینے چاہئیے۔
بھارت نے اپنے وفود میں بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس سمیت دیگر چھوٹی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین شامل کیے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی خاطر ایکتا کا اظہار کیا ہے۔ بھارت میں نیشنل ازم ہماری نسبت کہیں زیادہ ہے اس کی وجہ یہ کہ انہوں نے نیشنل ازم کا ہر سطح پر خوب پرچار کیا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے سیاسی تفریق بہت گہری ہوتی گئی ہے۔ پاکستانیت غالب نہیں آ پائی ہے۔ سیاسی و ذاتی مفادات نے پاکستان کا ڈھانچہ کمزور کیا ہے۔
قدرت نے ایک موقعہ دیا ہے۔ بھارتی جارحیت کو ملکی مفاد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت حالات اس کام کے لیے سازگار ہیں۔ نجم سیٹھی صاحب کی خبروں پر تجزیہ بعد میں کروں گا مگر میں کب سے کہہ رہا ہوں کہ تحریک انصاف کو انگیج کرنے کی ضرورت ہے۔ جو بھی ہے، جیسی بھی ہے مگر سیاسی وجود رکھتی ہے اور اس وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو انگیج کیجئیے، ان کی جماعت کے سینئیر سیاستدانوں کو انگیج کیجئیے جو سائیڈ لائن ہوئے ہیں۔ شفقت محمود گو کہ سیاست سے اعلان لاتعلقی کر چکے مگر اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو سفارتکاری کا تجربہ ہے۔ کہنے کا مقصد ہے تحریک انصاف کے دو تین لوگ ایسے ہیں جو معتدل مزاج اور معاملہ فہم ہیں۔
جیسے جیسے پاکستان کے سیاسی حالات کو بہتر کرتے جائیں گے ویسے ویسے پاکستان اندر سے مضبوط ہوتا جائے گا۔ پھر بلوچ یکجہتی کونسل سمیت پی ٹی ایم اور دیگر ناراض گروپس سے بھی بات چیت کرکے مسائل کے حل کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔ ہاں مسائل گھمبیر ہیں، لوگ شدید ناراض ہیں اور ان سب میں وقت درکار ہے مگر کہیں سے آغاز تو کیجئیے۔ بلوچ و پشتون خطے میں قومی جرگوں کو تشکیل دیں۔ عالمی محاذ پر سفارتی کمیٹیاں بنائیں۔ اکانومی سُدھر رہی ہے، کاروبار کا پہیئہ کچھ کچھ چل پڑا ہے، ان ساری کامیابیوں کو لانگ ٹرم فتح میں بدلیں گے تو پاکستان چلے گا۔ ڈنگ ٹپاؤ پروگرام کے تحت چھ سات دہائیوں سے یہ ملک گھٹنوں کے بل رینگتا آیا ہے، اب اسے چلنا تو سکھا دیں۔ پھر قدرت مہربان ہوئی تو دوڑنے بھی لگے گا۔

