Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Shehr e Khamoshan

Shehr e Khamoshan

شہر خاموشاں

کیولری گراونڈ قبرستان لاہور میں داخل ہوں تو آپ کو یوں لگے گا جیسے چھاؤنی میں داخل ہوئے ہیں۔ صاف ستھرا قبرستان، قطار اندر قطار ترتیب وار قبریں اور ان کے بیچ سرخ اینٹوں سی بنی راہداریاں، سنگ مرمر کی قبریں اور ان پر مزین بڑے بڑے مرمریں کتبے، سایہ دار درخت جن پر چونا پھرا ہوا ہے اور جن کی باقاعدہ کاٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔

قبرستان کے صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی آپ کو سنگ سفید مرمر سے بنیں کشادہ و اونچی قبریں نظر آتی ہیں اور ان قبروں پر لگے کئی کتبوں پر انگریزی میں تحریر لکھی ہے جن کا آغاز ان جملوں سے ہوتا ہے "مائی بیلوڈ مدر۔ مائی بیلوڈ فادر۔ مائی امی جان۔ مائی سویٹ ڈاٹر"۔ اس کے بعد انگریزی زبان میں جانے والوں کی یاد میں انگریزی نظمیں بھی کتبوں کی تحریر کا حصہ ہیں۔ ان نظموں کو پڑھتے اور ان کتبوں کی گردانی کرتے میں وہاں پھرتا رہا۔

کچھ گڈمڈ سے خیال ذہن میں آتے رہے۔ کتبوں کی عبارتیں عہدے و نام کے ساتھ ہیں۔ جوائنٹ چیف آف سٹاف، میجر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل، بریگیڈیئر، کرنل سبھی وہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چلتے چلتے غور کیا تو یہ معلوم ہوا کہ سو میں سے پانچ قبروں کے کتبوں پر عہدے کے ساتھ بریکٹ میں لفظ "ریٹائرڈ" لکھا ہوا ہے۔ باقی سب شاید ابھی تک رئیٹائرڈ نہیں ہوئے۔ قبروں پر لواحقین کی جانب سے عہدے لکھنا نہ معلوم کن وجوہات کی بنا پر ہوگا۔

شاید اگلے جہان بھی ان کے واسطے دعا ہو کہ وہاں بھی وہ میجر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل، جوائنٹ چیف آف سٹاف، ائیر مارشل، بریگیڈیئر، کرنل وغیرہ وغیرہ لگیں وگرنہ مجھے ایمان کی حد تک یقین ہے کہ منکر نکیر نے عہدے سے بالکل نہیں گھبرانا۔ گمان غالب یہ بھی ہے کہ ان بڑے بڑے مرمریں کتبوں پر مرحوم کے نام سے بھی بڑے عہدے شاید اس وجہ سے لکھے گئے ہیں کہ کوئی اجنبی اگر قبر کے پاس سے گزرے تو کتبہ پڑھ کر "با ادب با ملاحظہ ہوشیار" رہے۔

کچھ عجب سا لگتا ہے یا شاید میں کچھ ہٹ کے سوچنے کا عادی ہوں۔ یہ سوچ کر جھرجھری سی آ گئی کہ گر میری قبر ہو اور اس پر کتبہ لکھا ہو "کنسلٹنٹ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اقوام متحدہ سید مہدی بخاری"۔ فوری خیال آیا کہ گھر پہنچتے ہی حفظ ماتقدم کے طور پر اولاد کو ایڈوانس وصیت کر دوں گا کہ مرنے کے بعد میرے ساتھ یہ سلوک نہ کرنا۔ وہیں، انہی مرمریں، بلند، کشادہ، وسیع قبروں کے بیچ کچھ قبریں ہیں جو قامت میں پست، لمبائی میں چھوٹی اور کچی مٹی کی ہیں۔ ان کے اطراف اینٹوں سے حاشیہ برداری کی گئی ہے۔

کچھ قبروں کی گارے سے لپائی بھی ہوئی ہے۔ ان قبروں پر جو کتبے موجود ہیں وہ لوہے کی تختی کے ہیں۔ ان لوہے کی تختیوں پر جو عبارتیں ہیں وہ زیادہ تر "آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے" جیسے مصرعوں پر مبنی ہیں یا کسی نے مکمل اشعار و رباعیاں لکھ چھوڑی ہیں۔ یہ قبریں جن کی ہیں ان کے نام و عہدے بھی عام سے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے سپاہی یعقوب علی، لانس نائیک اشرف اعوان، صوبیدار میجر احمد علی چٹھہ، حوالدار ارمغان کوثر وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ کی قبریں بغور اور تا دیر دیکھیں۔

قبرستان میں دو چیزیں جو نوٹ کیں، ایک تو کچھ کتبوں پر انکی اولاد نے اپنے بھی پورے رینک اور رشتے لکھوائے ہیں، ایک مرحومہ کے کتبہ پر دو نیوی کے کمانڈر، ایک میجر، ایک کرنل، ایک ڈاکٹر کیپٹن کی والدہ ہونے کا شجرہ بھی ساتھ لکھا تھا۔ دوسرا اسی قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے صرف کچی قبروں اور لوہے کی تختیوں کے ساتھ ہی دیکھے جن میں اکثر پر شہید کا لفظ ضرور ہے۔

قبرستان اور قبروں کی دیکھ بھال کو عملہ موجود ہے۔ کمانڈر، مارشلز اور جنرلز کی ٹھنڈی ٹھار مرمریں قبروں کو دیکھتے چلتے کچھ فاصلے پر ایک کچی قبر پر نظر پڑی جس کو صفائی پر معمور یعنی عملے کا ایک شخص، درمیانی عمر کا بندہ گھٹنوں کے بل بیٹھے صاف کر رہا تھا۔ وہ درانتی سے اس کچی قبر پر اگ آنی والی گھاس اور خودرو بوٹیوں کو کاٹ رہا تھا۔ اچھی طرح صفائی کرنے کے بعد اس نے پانی کی گیلن سے قبر پر چھڑکاؤ کیا اور اسے تر و تازہ کر گیا۔

پھر وہ چند قدموں پر واقع ایک اور کچی قبر کی جانب بڑھا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کی صفائی کرنے لگا۔ میں چلتا چلتا جب تک اس کے پاس پہنچا وہ اس قبر کی صفائی کے بعد اس پر پانی سے چھڑکاؤ کر رہا تھا۔ قبر پر موجود بوسیدہ لوہے کی تختی کہہ رہی تھی "سپاہی امجد حسین کھوکھر (شہید محاذ چھمب جوڑیاں 1999) "۔ نیچے لکھا ہوا تھا "دشمن کی گولہ باری سے اگلے مورچے پر شہید ہوئے"۔ میرے سر پر پہنچتے ہی وہ شخص الرٹ کھڑا ہوگیا۔

میں نے اس سے پوچھا "آپ بس کچی قبروں کی صفائی ستھرائی ہی کرتے ہو کیا؟" اس شخص نے غالباً یہ سمجھا ہوگا کہ میں کوئی آفیسر ہوں جو اس سے باز پرس کرنے لگا ہوں۔ فوری سنجیدہ لہجے میں بولا "سر، سب کی صفائی کرتا ہوں"۔ یہ مختصر سا جملہ کہہ کر وہ وہیں بت بنا چپ ہوگیا۔ "وہ جو سنگ مرمر کی قبریں ہیں ان کے سفید مرمر پر دھول مٹی پڑ چکی ہے اور جم چکی ہے۔ لگ بھگ ساری قبروں کا یہی حال ہے اور فکر نہ کرو میں فوجی نہیں ہوں ویسے ہی جاننا چاہ رہا تھا"۔

یہ سن کر وہ شاید ایزی ہوا۔ بولا "سر، کچی قبروں کا زیادہ دھیان رکھنا پڑتا ہے"۔ یہ کہہ کر وہ پھر چپ ہوگیا۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ میں ملازم انسان ہوں۔ کہاں میں اور کہاں آفیسرز۔ وہ بلائیں گے تو حکم کا غلام جائے گا ناں۔ ویسے بھی ابھی تک بمطاق کتبہ جات وہ رئیٹائرڈ تو ہوئے نہیں۔ اور یہ سپاہی امجد حسین (شہید) تو اپنے بھائی جیسا لگتا ہے۔ گرائیں جیسا لگتا ہے۔ اس کی خیر ہے۔ وہ تو بت بنا کھڑا رہا۔ میں نے شہید کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ قبرستان کے صدر دروازے سے باہر نکلنے تک شام سنہری ہو چلی تھی۔ سورج ڈھلنے لگا تھا۔

کبھی کبھی شہروں میں دل بھر جائے تو قبرستان وزٹ کرنا چاہیئے۔ آخر میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ شہر خاموشاں وہ جگہ ہے جہاں زمین کے اوپر تو فٹوں کے حساب سے حسب توفیق و حسب عہدہ بلند و بالا قبریں ہو سکتی ہیں مگر وزیراعظم ہو یا چپڑاسی، جنرل ہو یا لانس نائیک، سب زمین کے چھ فٹ نیچے برابر یعنی سطح مرتفع ہموار پر خاک بسر ہیں۔

یہی آخری ٹھکانہ ہے۔ انسان ساری طاقت، دولت، دانش اور انا سمیت وہیں پہنچتا ہے۔ آرمی آفیسرز کو بھی قبرستانوں کا دورہ گاہے گاہے کرنا چاہیئے اور سویلینز کو بھی۔ آفیسرز جائیں گے تو انہیں احساس ہوگا کہ طاقت، اختیار و عہدے کا آخری ٹھکانہ یہ ہے۔ سویلینز جائیں گے تو احساس ہوگا کہ طاقت، اختیار و عہدے کا آخری ٹھکانہ یہ ہے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan