Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Shah Puttar Peezay Do Kar Lene San

Shah Puttar Peezay Do Kar Lene San

شاہ پُتر، پیزے دو کر لینے سن

کورونا عروج پر تھا۔ میں بالائی کمرے میں قرنطینہ بھگت رہا تھا۔ دس دن کورونا جھیلنے کے بعد طبیعت بحال ہونا شروع ہو چکی تھی۔ ایک شام میں گھر کی چھت پر تازہ ہوا لینے چلا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھت چھوڑ کر اس سے اگلے گھر کی چھت کا دروازہ کھلا اور وہ بچہ پارٹی کے ہمراہ بیٹ تھامے اپنی چھت پر نمودار ہوئی۔ ہلکے آتشی گلابی کرتے میں وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ اس کی نظر مجھ پر پڑی تو اس نے اپنے بوائے کٹ بالوں سے پن نکالی، ہونٹوں میں دبائی، آگے کی قدرے لمبی زلفوں کو ہاتھ سے سنوارا اور پھر پن ہونٹوں سے نکال کر رخ زیبا پر سایہ کرتی زلفوں میں سلیقے سے پرو دی۔ یہ خوابناک منظر دیکھ کر میرا کورونا رفو ہوگیا۔

میں انہماک کے ساتھ میچ کا واحد تماشائی بن چکا تھا۔ ابھی ٹاس ہو رہا تھا۔ وہ ٹاس جیت گئی۔ بوائے کٹ والی نے آستینیں چڑھائیں، بلا تھاما اور بیٹنگ کرنے لگی۔ ہر بال پر وہ فرنٹ فٹ پر آ کر سٹروک لگاتی، پھر ادائے بے نیازی سے میری سمت دیکھ کر آستینیں چڑھاتی۔

اتنے میں ہوا یہ کہ بچے کی بال پر اس نے بیک فٹ پر جا کر کھیلنا چاہا مگر بال وکٹوں کے عین سامنے اس کی ٹانگ پر جا لگی۔ یہ پلمپ ایل بی ڈبلیو تھا۔ بچے نے شور ڈال دیا "آوٹ آوٹ"۔۔ اس نے ماننے سے انکار کر دیا اور بضد ہوگئی کہ یہ آوٹ نہیں ہے۔ بچہ بھی گیم چھوڑ کر بحث کرنے لگا کہ آوٹ ہے۔ مجھ سے یہ دیکھا نہیں گیا۔ نجانے کیوں مجھے تکلیف ہونے لگی۔ میں نے فوری آواز لگائی " نہیں ہے آوٹ"۔۔ وہ بچہ جس کی بال پر آوٹ ہوئی تھی اس چشماٹو بچے نے اپنی عینک چڑھائی، مجھے دیکھا اور اونچی بولا " انکل آپ کو دور سے کیا نظر آ رہا ہے؟ آوٹ ہے۔ آپ بیچ میں نہ بولیں"۔۔

مجھے تو اس بچے پر سخت غصہ آنے لگا۔ میرا دل کرنے لگا کہ ابھی اس کی عینک توڑ دوں۔ بدتمیز بچہ تھا۔ یہ "انکل" کیا ہوتا ہے؟ وہ بھی اس بوائے کٹ والی کے سامنے ایسا سننا میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ میں نے فوری جواب دیا " جب سے میچ شروع ہوا ہے میں دیکھ رہا ہوں، تمہاری بال آف سائیڈ دی وکٹ پڑی اور ٹرن ہو کر لیگ سائیڈ پر جا رہی تھی۔ نیز اس کی ہائیٹ بھی زیادہ تھی لہذا یہ ایل بی ڈبلیو نہیں ہو سکتا"۔۔

میری بات سن کر بچہ چپ ہوگیا مگر اس نے عینک درست کرکے مجھے غصے میں گھورا۔ گیم دوبارہ آن ہوئی تو اس نے بلا لہرا کر پھر سے یوں دکھایا جیسے شکریہ کہنا چاہ رہی ہو۔ وہ بیٹنگ کرتی رہی، آستین بار بار چڑھتی رہی، بلا لہراتا رہا۔ آخر کار ایک ظالم ڈلیوری پر وہ کلین بولڈ ہوگئی۔ اس کے چہرے پر آئی اداسی دیکھ کر میرا دل ڈوب گیا مگر اب کے میں کیا کر سکتا تھا۔ آوٹ ہوتے ہی اس نے بال تھامی اور باولنگ شروع کرنا چاہی۔ میں نے بھی انداز بدلا اور انتہائی انہماک سے اسے دیکھنے کو پوزیشن سنبھالی۔ میرا خیال تھا کہ وہ دو قدم دوڑتی، ٹرائی لیتے ہوئے آئے گی تو شاید کرکٹ کا لطف دوبالا ہو جائے مگر صاحبو وہ تو سپنر نکلی!

کھڑے کھڑے بال کروانے لگی۔ مگر یوں تھا کہ بال کروا کے وہ دوسری ڈلیوری سے پہلے اک نظر دیکھتی ضرور تھی۔ ابھی باولنگ کا سلسلہ جاری تھا کہ مجھے محسوس ہوا جیسے میرے عقب میں کوئی ہلچل ہو رہی ہے۔ پلٹ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بیگم دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پر رکھے مجھے غضب بھری نگاہوں سے گھور رہی ہے۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ بول پاتا بیگم فوری واپس پلٹی اور اندر سے چھت کا دروازہ لاک کرتے بولی " کرکٹ انجوائے کریں۔ آج آپ کا کھانا پانی بند۔ اپنا بندوبست کر لیں"۔۔

یہ دھمکی میرے لیئے بہت سنجیدہ بات تھی کیونکہ بیگم نے آج تک کبھی خالی دھمکی نہیں دی۔ وہ پریکٹیکل کرکے دکھا دیتی ہے۔ صورتحال سے نمٹنے کو غور کرنے لگا۔ اب کرکٹ سے میری دلچسپی ختم ہو چکی تھی۔ مجھے اب اپنی آن پڑی تھی۔

میں نے پیزے والے کو کال کی اور یہ جان کر تسلی ہوئی کہ وہ پیزا ڈلیور کر رہا ہے۔ میں نے اسے اسپیشل ہدایات دیں کہ دروازے پر آ کر بیل نہیں بجانی بلکہ مجھے کال کرنی ہے۔ میں چھت سے رسی لٹکاؤں گا کسی طرح اس سے اچھا سا باندھ دینا۔ سن کر بولا " آپ کسی کو باہر بھیج کر کیوں نہیں پک کروا سکتے؟ رسی سے کیوں باندھنا؟"۔ میں پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا، میں نے کہہ دیا کہ بھائی چھت پر میچ چل رہا ہے اور نیچے کھانے کا وقفہ! تم کو جیسا کہا ہے ویسا کرو بس۔۔ اس نے سن کر اوکے کہا اور فون بند کر دیا۔

برابر میں میرے ہمسائے بٹ صاحب بھی چھت پر کہیں ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے۔ چچی بٹ نے ان کو بھی کھری کھری سنائیں تھیں۔ کبھی کبھی تو مجھے بٹ صاحب پر ترس آتا ہے اور ان کو کبھی کبھی مجھ پر رحم۔ فون بند ہوتے ہی بولے "شاہ پُتر! پیزے دو کر لینے سن، مینوں وی بھک لگی اے"۔۔

دو پیزے آئے۔ ڈلیوری بوائے سے بٹ صاحب نے دستی وصول کئے۔ ایک مجھے چھت پر آن کر تھمایا اور دوسرا خود کھا گئے۔ چچی بٹ کو معلوم پڑا تو انہوں نے فوراً بیگم کو اطلاع دی کہ یہ پیزے اڑا رہے ہیں۔ بیگم میرے کمرے کے باہر آ کر بولی "ابھی آپ کو کورونا ہے اور کرکٹ انجوائے ہو رہی، پیزے چل رہے۔ میں آپ کے لیے مٹن یخنی بنا رہی تھی۔ آپ کو پوچھنے آئی تو آپ کمرے سے نکل کر چھت پر کرکٹ دیکھ رہے تھے۔ نیچے تک آپ کی آوازیں آ رہی تھیں "نہیں ہے آؤٹ" اور بٹ چچا بھی آپ کے پیچھے کرکٹ دیکھ رہے تھے اور اب آپ دونوں پیزے کھا رہے۔ دل کر رہا اندر آ کے پیزہ چھین لوں۔ " میں نے فوراً دھمکی لگائی کہ اندر نہ آنا مجھے کورونا ہے۔ فوراً واپس چلی جاؤ۔ اس دن تو معاملات ٹل گئے مگر اس دن کے بعد سے میں کبھی چھت پر نہیں جا سکا۔ بٹ صاحب بھی نہیں جا سکے جبکہ انہوں نے کئی بار کہا کہ وہ تو گملوں کو پانی دینے گئے تھے بس۔ ان کی چھت پر پڑے گملوں کو پانی دینے اب چچی بٹ خود جاتیں ہیں۔

اب بھی بیگم کو جب یاد آ جائے مجھے سنانے لگتی ہے۔ میں کیسے سمجھاؤں کہ مجھے بس سپورٹس پسند ہے۔ صرف کرکٹ ہی نہیں، بیرون ممالک میں بالخصوص یورپ آسٹریلیا وغیرہ میں ساحل کنارے والی بال کھیلتیں، کتے کے ساتھ جاگنگ کرتیں، جمناسٹک کرتیں، صبح یا شام پارکوں میں ایکسرسائز کرتیں، سوئمنگ کرتیں، سرفنگ کرتیں دیکھنا وغیرہ وغیرہ سب سپورٹس دیکھنا پسند ہیں۔ آج میں نے جاپان میں سومو ریسلنگ دیکھنا چاہی۔ مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ یہ کھیل صرف مردوں تک محدود ہے۔ مجبوراً مجھے سومو پہلوانوں کی کُشتی ہی دیکھنا پڑی۔

Check Also

Bunyan Marsoos, Masla Kashmir Aur Trump

By Shafaqat Abbasi