Shab Gardi
شب گردی
کبھی کبھی تو رات کے اس پہر دل چاہتا ہے کہ خالی سڑکوں پر بلا مقصد نکلا جائے۔ کبھی کبھی میں گاڑی لے کر نکل پڑتا ہوں۔ بیگم، بچے سوئے ہوتے ہیں۔ کینال روڈ، گلبرگ، ڈی ایچ اے، رنگ روڈ، نجانے کہاں کہاں کو نکل جاتا ہوں۔ جہاں دل کیا اسی سمت کو گاڑی موڑ لی۔ کبھی کبھی نیم خوابیدہ چوکوں میں پیلی بتی کے اشاروں پر رک کر دیکھنا پڑتا ہے کہ دوسری جانب سے بھی کوئی میرے جیسا ہی تو نہیں آ رہا۔ اس وقت چوراہے بھی بھکاریوں سے خالی ہوتے ہیں۔
بیگم کی آنکھ کھل جائے تو فوری میسج ملتا ہے کہ آپ کہاں ہیں؟ اول اول وہ سچ میں پریشان ہو جایا کرتی تھی اب تو عادی ہو چکی ہے۔ پھر بھی میسج لازمی کرتی ہے شاید یہ نوٹ کروانے کو کہ میں نے نوٹ کر لیا ہے۔ شادی کے شروع کے دنوں میں جب میں یوں نکل جایا کرتا تھا تو واپسی تک وہ اٹھ کر بیٹھی ہوتی تھی۔ اسے کئی بار کہا تھا کہ میں یہیں ہوتا ہوں بس یونہی دل بہلانے باہر نکل جاتا ہوں۔ مگر ہر بار وہ پریشان ہو جاتی۔ واپسی پر اسے پھر سمجھانا پڑتا کہ دیکھو اسے تم عادت سمجھ لو۔ مجھے کچھ نہیں ہوتا۔ پریشان نہ ہویا کرو۔
اک دن یونہی میں گھر واپس لوٹا تو صبح کے چار بج رہے تھے۔ حسب معمول وہ ٹی وی آن کر کے میرے انتظار میں بیٹھی تھی۔ میں اندر داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر پھر کہا کہ تم کیوں جاگ جاتی ہو۔ وہ بولی "ایک بات مجھے سچ سچ بتائیں گے آپ؟"
"ہاں ضرور، کیا ہوا؟" میں سنجیدہ ہوگیا کہ خدا خیر کرے۔
"آپ سچی سچی بتا دیں اگر آپ کا کوئی باہر چکر ہے۔ آئے دن آپ نکل جاتے ہیں اور دو دو گھنٹے غائب رہتے ہیں۔ دیکھیں سچ بتا دیں تو مجھے بھی تسلی ہو جائے گی اور قسم سے آپ کو کچھ نہیں کہوں گی"۔ اس نے انتہائی سنجیدگی سے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔
یہ سن کر اول تو میرا قہقہہ لگانے کو من چاہا۔ پھر سوچا کہ نہیں وہ انتہائی سنجیدگی سے پوچھ رہی ہے یہ نہ ہو ناراض ہو جائے۔ شادی کو ابھی ایک ماہ ہی بیتا تھا۔
"میرا چکر رات کے ایک بجے تا تین بجے تک ہی ہونا ہے کیا؟ دن میں نہیں ہو سکتا؟ اور یہ آدھی رات کو کونسا چکر ہو سکتا ہے؟ میں بس یونہی باہر سڑکوں پر نکل جاتا ہوں۔ نیند آتی نہیں۔ دل بہل جاتا ہے اور کوئی بات نہیں"۔ اس دن اسے مکمل سمجھایا۔ اس دن کے بعد سے آج تلک یہ فرق پڑا کہ اب وہ جاگتی نہیں رہتی۔ بس میسج بھیج کر سو جاتی ہے۔ جب واپس کمرے میں داخل ہوتا ہوں کبھی کبھی آواز آتی ہے۔ "بھر گیا دل آپ کا؟ ہوگئی سیر تو اب سو جائیں"۔
سرما کی دھند بھری راتیں ہوں یا گرما کی حبس بھری شبیں۔ سڑکوں پر دیکھنے کو رات گئے بہت کچھ ملا ہے۔ چوکوں اور پلوں کے نیچے چھپ کر کھڑے مخنس جو گاہک کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ پیشہ ور خواتین، فقیر، فٹ پاتھوں پر گرین بیلٹ پر پڑے اونگھتے بے گھر افراد۔ تیل کی شیشیاں اٹھائے چھنکاتے چلتے مالشیئے۔ نشے میں دھت مردہ سے انسانی ڈھانچے۔