Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Selfie Program

Selfie Program

سیلفی پروگرام

سموگ کے سبب پنجاب میں تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے تھے۔ مملکت خداداد میں بے جا چھٹیوں کے سبب تعلیمی سال 120 دن تک محدود ہو چکا ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق تعلیمی سال 210 یا اس سے زائد دنوں پر محیط ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا تعلیم سے کوئی خاص واسطہ ہے بھی نہیں اس لیے حکومتیں جیسا چاہیں کریں مگر میں بس ایک سوال خود سے پوچھتا ہوں اور جواب نہیں ملتا۔

کیا دو چار یا آٹھ دس یا پندرہ بیس کلومیٹر پر واقع بچوں کے سکول کی فضا زیادہ زہریلی ہے اور گھر کی فضا کم زہریلی؟ کیا سموگ گھر سے باہر نکلنے والوں پر حملہ آور ہوتی ہے یا یہ زہر ہر سُو یکساں ہوا میں گھُلا ہوتا ہے؟ ریسٹورنٹس، مارکیٹس آپ آٹھ بجے ضرور بند کروائیے، ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے مگر سموگ کے سبب ہی بند کروانا اور سموگ ختم ہونے پر پابندی ہٹا دینے کی کیا منطق ہے۔

اچھا، آپ مملکت خداداد کے بچوں اور افراد کی صحت واسطے سخت پریشان ہیں۔ چلیں پھر یہ بتا دیجئیے کہ نشتر ہسپتال ملتان میں ایڈز زدہ مریض کے ڈائلیسز کے بعد اسی سرنج سے تیس مریضوں کا ڈائیلسز کرکے ان میں ایڈز منتقل کرنے پر ہسپتال کے عملے پر کیا ایکشن لیا گیا ہے اور وزیر صحت سے کسی نے باز پُرس کی ہے؟ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے حکومتوں کو عقل و دانش اور پالیسی سازی سے عاری، صرف و صرف تصویری نمائشی پروگراموں میں ہی متحرک پایا ہے۔ وقت کے ساتھ اسے سیلفی پروگرام میں ڈھالا جا چکا ہے۔

ریاست کی کئی قسموں میں سے ایک کلیپٹو کریسی یا چور شاہی کہلاتی ہے۔ یعنی رنگ، نسل، عقیدے، علاقے اور نظریے کے فرق سے بالا چوروں کا ایسا ٹولہ جو کوئی بھی روپ دھار لے مگر مقصد ایک ہی ہو۔ ریاست کو وسائل سمیت چرانا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کسے جمہوریت کہتے ہیں۔ میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے چور شاہی ہی دیکھی ہے۔ جب سے موبائل آیا ہے سیلفی کی بوچھاڑ بھی اسی کے بدولت ہوئی ہے۔ وقت کے ساتھ موبائل کے زمانے میں یہ سارا چور شاہی نظام ایک ہی اساس پر قائم ہوتا گیا ہے۔ وہ ہے سیاسی سیلفی پروگرام۔

یہ جو ٹی وی اسکرین پر چلتی پٹیاں ہیں، یہ جو کمرہ عدالت میں جاری سماعت کی لمحہ بہ لمحہ رئیل ٹائم روداد اور یور آنر کی آبزرویشنز فقرہ در فقرہ بریکنگ نیوز میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ انصاف کی سیلفی نہیں تو اور کیا ہے؟

یہ جو بڑے بڑے منصوبے کہ جن کا عوام کی مصیبتیں کم کرنے سے کوئی خاص لینا دینا نہیں۔ یہ بھی سرکاروں کی توجہ بٹاؤ سلیفیاں ہی تو ہیں۔ جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت یا آج کے احساس پروگرام کے تحت بارہ ہزار مہینہ دینے، اسکول سے باہر رہ جانے والے ساڑھے تین کروڑ سے زائد بچوں کی موجودگی میں لگ بھگ چالیس دانش اسکول یا سو ماڈل اسکول بنا دینے کا منصوبہ، مکتب اسکول کو کاغذ کی سیلفی پر چڑھا کر ساڑھے تین سو بچوں کو ایک استاد کے حوالے کر دینے کی خواندہ حکمتِ عملی، اسپتالوں کے کاریڈورز میں پڑے مریضوں کے لیے بستروں اور ادویات پر خرچ کرنے کے بجائے دو تین ٹراما سینٹرز اور تین چار برن وارڈز بنا کر سیلفی کھڑی کرنے کا فیشن۔ میٹرو و اورنج لائن جیسے سفید ہاتھی کھڑے کرنے کی سیلفیاں۔ مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے پناہ گاہوں کا قیام و لنگر خانوں کی سیلفیاں۔

اب تو مجھے جمہوریت بھی وہ موبائل فون لگنے لگا ہے کہ جس سے لیڈر لوگ پیچھے ہجوم کھڑا کرکے سیلفی لیتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ ہمیں کتنا عوامی اعتماد میسر ہے اور اس اعتماد کی بنیاد پر اگلے پانچ برس میں کتنی اور سیلفیاں بنانے کا حق مل گیا ہے۔

بابا مجھے نوکری چاہیے۔ چل آ سیلفی لیتے ہیں، بابا مجھے انصاف چاہیے، جب تک نہیں ملتا تب تک سیلفی لے لے نا، بابا مجھے تعلیم چاہیے، بس تعلیم؟ سیلفی نہیں چاہیے؟ بابا مجھے جان کی امان چاہیے، امان تو عدالت دے گی۔ چل بیٹا سیلفی لے لے رے۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti