Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Sawal Zindagi Hai

Sawal Zindagi Hai

سوال زندگی ہے

بقول دوستوفسکی "دنیا ایک ایسے وقت تک پہنچ جائے گی جب ذہین لوگوں کو سوچنے اور سوال اٹھانے سے روک دیا جائے گا تاکہ وہ احمقوں کو ناراض نہ کریں"۔

پوری تہذیبِ انسانی سوال پر کھڑی ہے۔ میں کون ہوں؟ تم کون ہو؟ ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟ یہ کیوں چلتی ہے پھر کیوں رک جاتی ہے؟ سورج مشرق سے ہی کیوں نکلتا ہے؟ اگر زمین گھوم رہی ہے تو پھر ساکت کیا ہے؟ جب دماغ کی ساخت ایک طرح کی ہے تو کچھ لوگوں کا دماغ زیادہ کام کیوں کرتا ہے اور کچھ لوگ کیوں اس سے بہت کم کام لے پاتے ہیں۔ کیسے فیصلہ ہوتا ہے کہ جسے ہم پاگل سمجھ رہے ہیں وہی پاگل ہے؟ لوہا اگر پانی سے بھاری ہے تو پھر جہاز کیوں تیرتا پھرتا ہے۔ تہذیب کیسے پیدا ہوتی ہے، عروج پاتی ہے، مر جاتی ہے۔ خیال عقیدہ کیسے بن جاتا ہے اور یہی خیال سائنسی سوچ میں کیسے ڈھل جاتا ہے۔ یہ سوالات کبھی نہ کبھی کسی نے تو اٹھائے ہوں گے تبھی تو ہم غار سے نکل کر سیاروں پر کمند ڈالنے اور خلا کو گھر بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔

جس طرح خاموشی آوازوں کی مرشد ہے اسی طرح سوال، جواب کا باپ ہے۔ سوال کی نوعیت و معیار ہی وہ ڈی این اے ہے جو میرے علمی شجرے کا پتہ دیتا ہے۔ سوال وہ پیمانہ ہے جس سے میری ذہانت، بے وقوفی اور سوچ کی گہرائی یا سطحی پن فوراً ناپا جا سکتا ہے۔

جواب معمولی ہو سکتا ہے مگر سوال معمولی نہیں ہوتا۔ بظاہر یہ سوال کتنا معمولی اور بے وقوفانہ ہے کہ سیب نیچے کی طرف ہی کیوں گرتا ہے اوپر کیوں نہیں جاتا؟ مگر اس ایک سوال نے کششِ ثقل کیسے کام کرتی ہے کا مسئلہ حل کرکے ایک جہانِ حیرت کھول دیا۔ جب سب انسانوں کے خون کا رنگ ایک سا ہے، دماغ کا حجم یکساں ہے، کرہِ ارض بھی سب کا سانجھا ہے، مرنا بھی سب کو ہے تو پھر یہ اونچ نیچ اور طبقاتی تقسیم کیا ہے؟ اس ایک سوال نے کارل مارکس پیدا کر دیا۔ کیا تشدد بڑی طاقت ہے یا عدم تشدد؟ اس سوال کا جواب گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا کی صورت میں موجود ہے۔

جب انسان کو عقل دی گئی ہے تو پھر اسے ایک تصور یا نظریے کی زنجیر میں میں تاقیامت کیسے جکڑا جا سکتا ہے اور اسے مختلف انداز میں سوچنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے اور جب روکا جاتا ہے تو اس کے کیا فوائد و نقصانات ہوتے ہیں؟ اس ایک سوال نے روشن خیالی کے تصور و تحریک کو جنم دیا۔

سوال پانی کی طرح ہوتا ہے۔ بہتا رہے تو صحت افزا ہے۔ روک دیا جائے تو جوہڑ ہے۔ ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ خود کو، آس پاس کو اور جوابات کی تلاش پر نکلے سوالات سے خوفزدہ معاشرے یا ریاست کو دیکھ لیں اور پھر ان معاشروں کی کامیابیاں اور ناکامیاں ناپ لیں جنہوں نے سوال کے جواب کی کاوش میں معاشرے کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے۔

ان سماجوں کو دیکھ لیں جو "مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔۔ میں حق ہوں دنیا میں آیا ہوا" کے گرد کولہو کے بیل کی طرح گھومنے کو سفر سمجھ رہے ہیں اور ان معاشروں کا سفر دیکھ لیں جہاں کی قوم میں اس طرح کے جملے روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں کہ "ہو سکتا ہے میں غلط ہوں مگر میرا خیال یہ ہے، آپ اگر میرے خیال کو غلط ثابت کر دیں تو مجھے بے حد خوشی ہوگی، اگرچہ میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا تاہم آپ کے زاویہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کروں گا، اختلاف کے باوجود میں چاہوں گا کہ ہمارا مکالمہ جاری رہے، ممکن ہے ہم کوئی مشترکہ نکتہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں"۔ 

جس دن ہم اپنی لغت سے "بلاشبہ، یقیناً، بجا فرمایا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ ممکن ہی نہیں ہے، میں ایسی بات ہرگز نہیں سن سکتا، میں یہ پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا، مجھے آپ کے کہے پر اندھا اعتماد ہے، بس یہ آخری بات ہے" وغیرہ جیسی لفظیات و محاورات و روزمرہ سے چھٹکارا پانے کی سوچیں گے اور سوال کی سیڑھی پر چڑھ کے تشکیک کے میدان میں کودنے کا ارادہ باندھیں گے اس روز سے ہمارا صدیوں سے رکا ذہنی ارتقائی سفر بحال ہونے لگے گا۔ لیکن اگر آپ نے دوسرے کی بات پوری طرح سنے اور سمجھے بغیر سوال داغ دیا تو ایسا سوال ہٹ دھرمی، مناظرے اور مفت کی کشیدگی کی جانب تو لے جا سکتا ہے علم کے کوچے میں نہیں۔

سوال ایٹم سے زیادہ طاقتور ہے تبھی تو بادشاہ سوال سے ڈرتا ہے، ریاست سوال سے کانپ جاتی ہے۔ آدھا بجٹ ان اقدامات پر صرف ہوتا ہے جو جراتِ سوال کو دبا سکیں۔ کیونکہ سوال دبدبے کو خاک میں ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے تبھی تو مدرسے، اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں سوال پوچھنے والے طالبِ علم کو بدتمیز، گمراہ اور جانے کیا کیا کہا جاتا ہے، تبھی تو مسئلے کا حل خود تلاش کرنے کی عادت ڈالنے کے بجائے بچوں کو طوطے کی طرح رٹوایا جاتا ہے تاکہ نسل در نسل تابعدار اور ذہنی غلاموں کی سپلائی میں خلل پیدا نہ ہو اور علم و دانش کے خزانے پر سانپ بن کر بیٹھے عالموں اور حکمرانوں کا دبدبہ، وقار اور تاج برقرار رہے۔ بدتمیز بڑوں سے سوال کرتا ہے؟ کیا والدین نے یہی تربیت دی ہے؟ گستاخ۔۔

لیکن سوال مدمقابل یا کسی دوسرے پر اٹھانے سے پہلے اپنے گھر، اپنے سیاسی و مذہبی راہنما، اپنے سماجی نظریات و عقائد پر اُٹھائیں پھر آگے بڑھیں۔ اگر ہم اپنی نسلوں کو سوال اٹھانے پر نہ ٹوکیں تو شاید ہم اپنے سیاسی و سماجی نقصان کی بھرپائی کر پائیں۔ بصورتِ دیگر اسرافیل تو پردے کے پیچھے ہمارے انتظار میں اپنی گھڑی دیکھ ہی رہا ہے۔

حضرت علی (ع) کا قول ہے "کسی کو اس کے جواب سے نہیں سوال سے پہچانو۔ "

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed