Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Salman Ahmed Ka Junoon Bhi Utaar Diya

Salman Ahmed Ka Junoon Bhi Utaar Diya

سلمان احمد کا جنون بھی اُتار دیا

سلمان احمد کا جنون بھی اُتار دیا اگلوں نے۔ او بھیا یہ ون مین شو پارٹی ہے۔ سوال اٹھانے والا گالیاں کھاتا ہے۔ اخیر قسم کا یوتھیاپہ سلمان احمد نے پھیلایا۔ جب تک پھیلا رہا تھا وہ آنکھوں کا تارہ تھا۔ جیسے ہی اس نے سوال اُٹھایا کہ بشری بیبی کیوں بھاگیں؟ توں ہی مرشد نے اسے ڈس اون کیا اور پھر اسے گالم گلوچ بریگیڈ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

خان صاحب جو کہہ دیں وہی منشور ہے اور وہی پارٹی ڈسپلن۔ خان صاحب اور خاتون اول کی باتوں، حرکات پر سوال اُٹھا کر دیکھ لیں۔ اگلے ایک منٹ نہیں لگاتے آپ کی آتما رول دیتے۔ فوزیہ قصوری، وجیہہ الدین، شیریں مزاری سمیت ایک لمبی لسٹ ہے اور یہ وہ پارٹی ہے جس کے عہدوں سے جو بھی نکلا رسوا ہو کر نکلا۔ آپ دیکھ لیں ان کے سیکرٹری جنرلز کا انجام، ان کے صوبائی صدور کا انجام۔ مناسب بات کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ بھی چند دن کے مہمان ہیں ان کا بھی انجام دیکھ لیجئیے گا۔

یہاں کامیاب ہے بڑھک باز، اوئے توئے والا، تیری ایسی کی تیسی، شہباز گل مائنڈ سیٹ۔ یہاں آپ قائد اور ان کی زوجہ پر سوال نہیں اُٹھا سکتے اور شعور تو ایسا بانٹا کہ انور مقصود سا بزرگ ہو یا اٹھارہ سال کا سٹوڈنٹ سب کا ذہنی معیار ایک سا ہوگیا۔

بہت سے لوگوں کی مجبوری بن گئی ہے۔ وہ اس یوتھیاپے سے نکلنا بھی چاہیں تو اب نہیں نکل سکتے۔ ان کو اب وہی کچھ فیڈ کرنا ہے جو وہ کرتے آئے ہیں۔ وگرنہ انجام سامنے ہے۔ صورتحال تو یہ ہو چکی جو ان کا ناقد یا مخالف اینکر یا یوٹیوبر ہے ان کے ہوم اینڈ آفس ایڈریسز کے ساتھ نمبر پبلک کرکے ان کو جان سے مارنے کی مہم چلائی گئی ہے۔ مزمل شاہ کے گھر پر حملہ کیا ہے۔ طلعت حسین اور دیگران کے بچوں کے سکولز کا پتہ تک اس گھٹیا مہم میں شئیر کیا گیا ہے۔ قاسم علی شاہ نے ایک بات کہی تھی اس کے بچوں تک کو سکول میں ہراساں کر دیا گیا۔

تو بھائی ایسے میں جب کوئی یوتھیا ناچتا ہوا آتا ہے آپ بتائیے اسے ہار پہنائیں؟ وہ سیدھا آپ کی ذات پر حملے سے بات کا آغاز کرتا ہے۔ جو ان کی آواز نہیں بنتا وہ ان کے ہاں دائرہ اسلام سے خارج جیسا تصور ہے۔ جو سوال اُٹھاتا ہے وہ مردود ہے۔ اس سوچ کی آبیاری کرنے والے اس کے اصل ذمہ دار ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس پروپیگنڈا کا شکار طبقے سے زیادہ غصہ ان پر آتا ہے جنہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان کو فیڈ کرکے جنم دیا ہے۔ وہ خود بھی اس کو بھگت رہے ہیں مگر بہت زیادہ بھگتیں تو ہی تسلی ہوگی۔ انہوں نے دودھ پلا کر ایناکونڈا پالا تھا اور ان کا خیال تھا کہ یہ بس ہمارے مخالف کو کاٹے گا۔ گڈ ہو رہا۔ بہت اچھا ہو رہا۔ کبھی کبھی غصہ تو آتا ہے مگر ساتھ ساتھ یہ بھی خوشی مل جاتی کہ کونسا ہم اکیلے بھگت رہے۔ مالکان بھی بھگت رہے۔ مالکوں کا جب جی اُچاٹ ہوگیا اور ففتھیے باغی ہو گئے تو انہوں نے کاٹھی دوسرے گھوڑے پر ڈال لی۔ پرانے خدمتگار پھر لا بٹھائے اور اسٹک سے نظام چلانے لگے۔ ووٹ کو عزت دو والے انقلابی دو ٹکوں میں بک گئے۔ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے والے چی گویرے بیبی کی شہادت کا غم مناتے انہی کی گود میں جا بیٹھے۔

پارٹی کے اندر جمہوریت نہیں۔ اخے سول سپریمیسی کی جنگ لڑ رہے۔ حکومت باقی رکھنے کو باجوہ کو مزید ایکسٹینشن دینے کی آفر تھی۔ اخے سول سپریمیسی۔ جب عدم اعتماد سر پر آ گئی تو تب اسمبلی توڑنا یاد آیا۔ اس سے قبل جب کہا گیا تھا کہ خان صاحب اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کروا دیں تب فرمایا کہ نہیں توڑیں گے۔ اس وقت انتخابات سوٹ نہیں کرتے تھے کیونکہ مقبولیت کا گراف نیچے گرا ہوا تھا۔ پھر خود ہی بعد میں پنجاب اسمبلی توڑ دی۔ پھر واپس حکومت بنانے پر زور دینے لگے۔ اخے سول سپریمیسی۔ احتجاج در احتجاج میں اسی سسٹم میں صرف اپنا مینڈیٹ مانگ رہے۔ اخے سول سپریمیسی۔ چھبیسویں آئینی ترمیم میں گیارہ لوگ لاپتہ ہوئے۔ ان کی تصاویر لگا کر غدار وطن کہا گیا۔ شوکار جاری کریں گے۔ نکال دیں گے۔ پھر کیا بنا؟ آج بھی وہ ممبر اسمبلی ہیں۔ اخے سول سپریمیسی۔

اپنا کوئی نظریہ کوئی اصول ہوتا تو آج اس حال میں نہ ہوتے۔ نہ کوئی نظریہ نہ قواعد۔ نرا لُچ فرائی اور لونڈا لپاڑا گروپ۔ ہر بار اس انقلابی پارٹی کے "نظریاتی" بندے بک جاتے ہیں۔ یہ دنیا کی واحد انقلابی و نظریاتی جماعت ہے جس کے لوگ موقعہ پڑنے پر اِدھر اُدھر نکل جاتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد میں ان کے بیس لوگوں نے وفاداری تبدیل کر لی، کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد مئیر کراچی کے الیکشن میں بتیس لوگ منحرف ہو گئے۔ پچھلے دو سالوں میں پنجاب میں حکومتیں موسم کی طرح بدلتی رہیں تو ان کے لوگ بھی پنچھی کی مانند کبھی اس ڈار کبھی اُس ڈار بیٹھتے رہے۔

معاملات سیاستدانوں کی بجائے وکیلوں کے حوالے کر دئیے۔ ٹی وی پروگرامز میں وکیل چھا گئے۔ وہی ترجمان بن گئے۔ وہی ٹکٹیں لے اڑے۔ جو سیاسی قیادت تھی وہ کھڈے لائن لگا دی۔ کے پی میں گنڈاپور کا تحفہ دے دیا۔ اخے سول سپریمیسی کی جنگ ہے۔ قسم ہے پیدا کرنے والے کی کہ انہوں نے سول سپریمیسی کے نعرے پر سول سپریمیسی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ فوج نے ساری سیاسی سپیس قبضے میں لے لی ہے۔ حسرت ہی رہ گئی کہ اس ملک میں کبھی سول سپریمیسی آئے گی۔۔ بقول افتخار عارف "کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو"۔ دکھ ہوتا ہے کہ جو تھوڑی بہت امید باقی تھی کہ کبھی کوئی سول سپریمیسی کے لیے نکلے گا وہ بھی چھین لی۔ ان لوگوں کی اقتداری خواہشات نے سب ملیا میٹ کر دیا۔

اخیر ہی نان سیریس طبقہ جنم لے چکا ہے۔ سیاسی شعور سے نابلد یوتھیوبرز کی خبروں اور ویلاگز اور جعلی خبریں بنانے والی پراپیگنڈا فیکٹریوں سے اپنا ذہنی راتب لیتے ہیں اور اسے ہی حق سچ سمجھ کر چل پڑتے ہیں۔ جو ان کو سُوٹ کر جائے وہ بسم اللہ۔ جو ان کو اچھا نہ لگے اس کی PDS..

چلو آ جاؤ اب بخاری حاضر ہے لکھنے کی سزا پانے کو۔

Check Also

Bartania Mama Bane Na America Thekedar

By Najam Wali Khan