Safar Ki Chaah
سفر کی چاہ
ایک پرانی کہاوت ہے کہ دھرتی ایک کھلی کتاب ہے اور جو لوگ سفر نہیں کرتے وہ اس کتاب کا ایک ہی صفحہ پڑھتے ہیں۔
سفر کرنے کی چاہ نے مجھے ہمیشہ سے بے چین رکھا ہے۔ جمود میرے اندر بے چینی بھرنے لگتا ہے۔ ایک جگہ ٹک کر زیادہ دیر نہیں رہا جا سکتا۔ گزشتہ 12 سالوں کے دوران میں نے گلگت بلتستان سے لے کر بلوچستان تک ملک کے طول و عرض میں سفر کیے اور اپنے فن کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ملک کا خوبصورت چہرہ دنیا کو دکھاتا رہا۔
اک عرصے سے میری خواہش رہی کہ سابقہ فاٹا اور موجودہ خیبر پختونخوا کی ان وادیوں میں سفر کروں جو انتہا پسندی سے متاثر ہوئے اور وہاں کے لوگوں کے دکھ سنوں۔ سابقہ فاٹا کی 7 ایجنسیاں تھیں جو اب خیبر پختونخوا میں ضم ہو کر ڈسٹرکٹ بن چکی ہیں۔ ان اضلاع نے مذہبی انتہا پسندی کو بھگتا ہے۔ سوات سے لے کر سابقہ فاٹا تک خونریزی رہی اور اب جب امن بحال ہو چکا تو جون کی ایک تپتی دوپہر کو میں نے لاہور کو چھوڑا۔ میری منزل ضلع کرم کا صدر مقام پارا چنار تھی۔
گرم دُھول اڑاتے دن میں موٹروے پر سفر ہوتا رہا۔ میرے خیالوں میں ان دنوں کے پارا چنار کی تصویریں آتی رہیں جب کوہِ سفید کے دامن بسی یہ وسیع وادی امن و خوشحالی کا گہوارا ہوا کرتی تھی۔ جہاں چاند نکلتا تو رباب کی آواز وادی میں گونجا کرتی۔ یہاں بسنے والے پڑھے لکھے باشعور لوگ تھے مگر پھر فرقہ واریت کی ایسی آگ پھیلی کہ وادی میں چاند نکلنا بند ہو گیا۔
خونریزی ایک دو دہائیوں تک ہوتی رہی۔ رباب بجانے والوں کے ہاتھ بندوقیں آ گئیں۔ پھر فرقہ ورانہ قتل و غارت کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے بالخصوص پارا چنار اور بالعموم ضلع کرم کو اپنے حصار میں لیا۔ 2015ء میں پاک فوج کی کوششوں سے امن قائم ہوا اور اب پارا چنار میں معمولاتِ زندگی بحال ہوئے آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ چاند وادی پر دمکتا ہے تو چنار کے پتوں کی سرسراہٹ رباب کی کمی پوری کر دیتی ہے۔
پارا چنار کو جاتی ایک واحد سڑک دریائے کرم کی صحبت میں چلتی رہی۔ راستے میں ایک مقام ایسا آیا کہ میں نے دیکھا ایک پہاڑ کی پگڈنڈی پر خواتین رنگ برنگی برقعے پہنے قطار در قطار چلی جا رہی ہیں۔ وہیں پاس ایف سی کی چیک پوسٹ واقع تھی۔ پشتون علاقوں میں سفر کرتے عورت مجھے شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملی اس کی وجہ پشتون روایات ہیں۔
میں پہلے پہل تو یہ سمجھا کہ شاید یہ خواتین کسی عزیز کی شادی یا موت پر چلی جا رہی ہیں۔ میرے استفسار پر ایف سی کی چوکی پر موجود جوان نے بتایا کہ اس علاقے میں موبائل سگنلز کا بہت مسئلہ ہے، یہ خواتین روزانہ شام کو پہاڑ کی ٹاپ پر چڑھتی ہیں جہاں موبائل سگنلز آ جاتے ہیں اور وہاں دو سے تین گھنٹے بیٹھ کر بیرون ملک محنت مزدوری کرتے اپنے مردوں کے فون کا انتظار کرتی ہیں۔ کبھی تو فون آ جاتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ اگلے دن پھر سے بات کرنے کی چاہ میں یہ خواتین اسی وقت چلنا شروع کرتی ہیں۔
جوان نے بتایا کہ ایک بزرگ خاتون ایسی ملی کہ جو روز اپنے بیٹے کی کال کے انتظار میں یہ مشکل چڑھائی چڑھ کر جاتی ہے مگر اس کا بیٹا فون نہیں کرتا۔ یہ عمل یہاں کی خواتین کا معمول ہے۔ مرد ملک سے باہر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ زیادہ تعداد متحدہ عرب امارات میں کام کر رہی ہے۔ یہ سن کر جب میں نے پہاڑ پر چڑھتی خواتین کی قطار پر نظر ڈالی تو قطار دھندلی ہو چکی تھی۔ بہتی ہوا میری آنکھ میں نمی بھر گئی تھی۔
سفر جاری رہا اور میرا دھیان ان خواتین کے المیے پر مرکوز رہا۔ اپنے باپ، بھائی، شوہر و بیٹے کی خیریت معلوم کرنے اور آواز سننے کی چاہ نے ان خواتین کو کیسے بے چین کر رکھا ہے۔ کھڑکی سے باہر کے مناظر دھندلے رہے۔ کوہِ سفید کے پہاڑوں پر ایک اور شام ڈھل رہی تھی جب میرا قدم پارا چنار کی زمین پر پڑا۔ بازار میں چہل پہل ختم ہونے کو تھی۔ پہاڑی علاقوں میں بسے یہ بازار شام کے بعد بند ہونے لگتے ہیں، لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگتے ہیں۔
میرا ارادہ پارا چنار میں موجود واحد سُنّی مسجد جانے کا تھا۔ اس مسجد کا نام ہی سُنّی مسجد ہے۔ پارا چنار کی آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔ 80 کی دہائی میں پارا چنار روس کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کا بیس کیمپ ہوا کرتا تھا۔ اس کی وجہ پارا چنار کی منفرد لوکیشن تھی۔ اس کو اک جانب سے افغانستان کا صوبہ پکتیا لگتا ہے تو دوسری جانب سے خوست، تیسری سمت ننگرہار ہے۔
چنار کے درختوں کی بہتات کی وجہ سے اس کو پارا چنار کا نام ملا۔ پارا پشتو میں پتے کو کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک چنار کا درخت ہوا کرتا جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر مقامی جرگہ ذر، زن و زمین کے فیصلے کیا کرتا۔ شیعہ سُنّی آپس میں یوں گھل مل کر رہتے کہ اک دوجے سے رشتے ہوا کرتے۔ ایک دوجے کے دُکھ سُکھ میں شریک ہونا عبادت سمجھی جاتی تھی۔ جنگجوؤں نے پارا چنار کو بیس بنا کر افغانستان میں مداخلت کی اور دنیا کی سپر پاور روس کو شکست سے دوچار کیا۔
روس کی شکست کے بعد دشمن طاقتوں نے منظم منصوبہ بندی کر کے پارا چنار میں فرقہ ورانہ فسادات کی داغ بیل ڈالی۔ لوگ غلط فہمیوں کا شکار ہونے لگے اور پھر اک دوجے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ کئی گھر ٹوٹ گئے۔ قتل و غارت 2 دہائیوں تک ہوتی رہی۔ خونریزی اتنی شدید ہو چکی تھی کہ پارا چنار کو پاکستان سے ملانے والا واحد روڈ کئی سال آمدورفت کے لیے مکمل بند رہا۔
پارا چنار میں بستی سُنّی آبادی نے وہاں سے ہجرت کی اور تھوڑا پیچھے بسے ایک شہر صدا میں آ کر آباد ہو گئی جہاں سُنّی مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ خونریزی چلتی رہی، نوجوان قتل ہوتے رہے، گھر جلائے جاتے رہے۔ پارا چنار کے لوگ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں جانے کے لیے ڈیورنڈ لائن عبور کرتے اور افغانستان کے صوبے خوست میں داخل ہو کر طورخم بارڈر کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے۔
"سٹوڈنٹس" کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا تو فوج نے پارا چنار میں امن کی بحالی کی خاطر امن جرگوں کا انعقاد کروایا۔ 2015ء سے پارا چنار میں امن و امان کی فضا قائم ہے۔ وہ سُنّی آبادی جو یہاں سے منتقل ہو چکی تھی وہ واپس اپنے گھروں میں آ کر آباد ہو رہی ہے۔ سُنّی مسجد میں داخل ہونے تک مغرب کی اذان ہو چکی تھی۔ لوگ وضو کرنے میں مصروف تھے۔ مسجد کا دالان پنجاب کی پرانی حویلیوں جیسا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میں کسی پرانی حویلی کے دالان میں کھڑا ہوں لکڑی کے شہتیر، لکڑی کے بالوں کی چھتیں۔
نماز ادا کر کے میں نے امام مسجد صاحب سے موجودہ صورتحال سے متعلق دریافت کرنا چاہا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے اللہ کا شکر ہے کہ حالات نارمل ہیں اور سب کی توجہ اپنے کاروبار کے پھیلاؤ کی جانب ہے۔ اس شام مسجد سے باہر نکل کر اپنے شب بسری کے مقام پر آنے تک رات پھیل چکی تھی۔ پہاڑی علاقوں میں سرِشام ہی بازار بند ہونے لگتے ہیں۔ وادی چاندنی میں نہانے لگی اور پھر نیند کی دیوی نے بانہیں پھیلا دیں۔
اگلی صبح چنار کے درختوں سے چھنتی اتری۔ جیپ پاک افغان بارڈر کی طرف بھاگنے لگی۔ آگے چڑھائیاں تھیں۔ اکا دکا ٹرک مال لوڈ کیے برابر سے گزرتے رہے۔ سورج سر پر آن کھڑا تھا۔ سرحدی چوکی میں اندراج کروا کر اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو پاک فوج کا کپتان مجھے پہچان کر مسکرایا۔ پشتون نوجوان کی نیلی آنکھیں اس کے لبوں کی مسکراہٹ کے ساتھ پھیل گئیں۔ وہ مجھے اپنے علاقے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے میرے ساتھ سرحد تک چند قدم چلا۔
آگے بیرئیر لگا تھا۔ بیرئیر کے پاس افغان فوج کے جوان ڈیوٹی پر موجود تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ ہماری جانب چلتے آئے۔ سرحدی بیرئیر کے اوپر سے مصافحہ ہوا۔ قہوے کی دعوت دی گئی اور کچھ دیر میں افغانی قہوہ آ گیا۔ میں اور کپتان صاحب بیرئیر کے اس پار پاکستان کی زمین پر کھڑے اور افغان فورسز کے جوان اپنی سرزمین پر کھڑے قہوہ نوش کرنے لگے۔ پشتو سے ناآشنا ہونے کے باعث مجھے ان کی گفتگو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
کپتان صاحب مترجم کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ اس دوپہر پاک و افغان جوانوں کی ہنسی قہوے کی مصری میں ڈھل کر سرحد پر گونجتی رہی۔ دھوپ میں ہلکی تمازت تھی۔ میں پاک افغان سرحد پر موجود تھا۔ یہ میری آخری منزل تھی۔ میرے سفر کا اختتام ہو چکا تھا۔ کرم ایجنسی میری قدم بوسی و مہمان نوازی کر چکی تھی۔ آنکھ کے پردے نے سب مناظر اور مقامی لوگوں کی ہنسی ذہن میں محفوظ کر لی تھی۔ وہیں کہیں سے فاختہ کے چہچہانے کی آواز گونجنے لگی۔
ایک سیاح کے لیے واپسی کا سفر ہمیشہ ہی خوشی و غم سے گندھا ہوتا ہے۔ خوشی گھر واپسی کی اور غم مہمان نواز لوگوں و مہربان وادیوں سے رخصت کا۔ واپسی کے سفر میں جگہ جگہ ایف سی کی چوکیوں میں موجود جوان ہاتھ کے اشارے سے خدا حافظ کہتے رہے۔