Thursday, 05 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Puta

Puta

پُوتا

مجھے نئی نئی زبانیں سیکھنے میں دلچسپی ہے۔ جہاں جہاں گیا ہوں کوشش کرتا ہوں دو چار ایسے الفاظ جو روزمرہ استعمال کے ہوتے ہیں وہ سیکھ لوں۔ جیسے کہ ویلکم، شکریہ، گڈ مارننگ، گڈ نائٹ، ہائے، بِل وغیرہ وغیرہ۔ یوں ان لوگوں کو بھی خوشی ہوتی ہے جن کی مقامی زبان بول رہا ہوتا ہوں۔ ظاہر ہے جیسے کوئی غیر ملکی پاکستان آ کر ہماری زبان میں شکریہ، سلام، خدا حافظ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرے تو ہمیں خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔

ڈینش لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ یہ زبان ساٹھ لاکھ سے ستر لاکھ لوگ ہی بولتے ہیں۔ ڈنمارک اور اس کے سرحدی علاقوں کے سوا یہ نہیں بولی جاتی۔ مگر آفرین ہے ان لوگوں پر کہ یہ صرف و صرف اپنی زبان بولتے ہیں اور نئی زبان سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ نئی نسل کچھ تبدیل ہو رہی ہے مگر ان کا بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ زیادہ تعداد بوڑھوں کی ہے اور جوان نسل کم ہے۔ جو جوان ہیں وہ بچے پیدا نہیں کر رہے اور یوں ان کی نسل کو خطرات لاحق ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں ڈینش تنظیمیں سوچ بچار کرتی رہتی ہیں کہ کیسے نسل بڑھانے کے لیے نوجوانوں کو شادی کی جانب راغب کرکے ان کو اولاد پیدا کرنے پر مراعات دی جائیں۔

گذشتہ سب موسم ٹھنڈا تھا۔ میں چلتے چلتے ایک بار اینڈ کافی شاپ کے باہر فٹ پاتھ پر لگے ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ میرے بالکل ساتھ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا گروپ تھا۔ وہ سگریٹ نوشی کر رہے تھے بئیر پی رہے تھے۔ ان کی ہنسی مزاق عروج پر تھی۔ آپسی گفتگو میں مگن وہ مجھے دیکھتے اور مسکرا کر سر ہلا دیتے۔ میں بھی مسکرا کر سر ہلا دیتا۔ ان کی گفتگو میں کافی الفاظ انگریزی کے تھے یا شاید مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے انگلش زبان کی بگڑی ہوئی شکل کے کچھ الفاظ ہیں۔ میں سیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ اتنے میں ایک لڑکے نے ویٹر کو دیکھتے ہی سیٹی ماری اور ہنستے ہوئے اونچی آواز لگائی "پُوتا"۔

ویٹر ان کی جانب متوجہ ہوا اور ہنستا ہوا ان کی طرف آیا۔ اس نے سب کے ہاتھوں پر ہاتھ مارا۔ ہیلو ہائے کرنے لگا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں چونکہ باقاعدہ گاہک تھے اس واسطے شاید ویٹر کے ساتھ دوستی تھی یا ویٹر ان کے گروپ کا تھا۔ بہرحال مجھے کافی کی طلب ہو رہی تھی۔ میں نے بازو بلند کرکے اسی ویٹر کو آواز لگا دی "پُوتا"۔

میرا کہنا تھا کہ اس گروپ کو ہنسی کا دورہ پڑا۔ یکدم وہ سب میری جانب متوجہ ہوئے اور پھر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے گئے۔ ان میں ویٹر بھی شامل تھا۔ لڑکیوں کی حالت زیادہ خراب تھی۔ میں بھی ہنسنے لگا۔ میری کامن سینس نے الارم دے دیا کہ شاہ کوئی بھنڈ وج گیا اے، کوئی غلطی ہوگئی ہے۔ وہ ہنستے گئے مجھے بھی ان کے سبب ہنسی آتی رہی۔ پھر میں نے انگریزی میں ان سے سوری کرتے کہا کہ مجھے زبان نہیں آتی۔ میں ٹورسٹ ہوں۔ میں سمجھا ویٹر کو ڈینش زبان میں "پُوتا" کہتے ہیں۔ یہ بات سن کر ان میں سے ایک لڑکا ہنس ہنس دہرا ہوگیا اور باقی سب اس کی شکل دیکھ کر اس سے اپنی زبان میں پوچھنے لگے کہ ہمیں بھی بتاؤ اس نے کیا کہا ہے۔

لڑکا کچھ سنبھلا تو سارے گروپ کو ترجمہ کرکے بتانے لگا۔ گروپ کو پھر سے ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ شاید اس لڑکے کو ہی سارے گروپ میں انگریزی کی سمجھ آتی تھی۔ جب ہنس ہنس کر تھک چکے تو پھر میری جانب سب کی گردنیں مُڑ گئیں۔ لڑکے نے کہا "یہ پُوتا ڈینش زبان کا لفظ نہیں ہے۔ ویٹر ہمارا کلاس فیلو ہے۔ یہاں کام کرتا ہے۔ یہ میکسیکن ہے۔ اس کی چھیڑ "پُوتا" ہے کیونکہ یہ بات بات پر ہم کو اور سب کو یونیورسٹی میں پُوتا کہتا تھا۔ اس لفظ کا میکسیکن زبان میں مطلب ہے "مدر فک*" یعنی چادر مود۔ ہم نے اس کا نام ہی پُوتا رکھ دیا ہے"۔ 

یہ سن کر میرا ہاسا چھُوٹ گیا۔ وہ بھی پھر سے ہنسنے لگے۔ میں نے ویٹر سے معذرت کی۔ وہ پھر کافی لایا۔ کچھ منٹوں بعد گروپ اُٹھ گیا اور اپنی راہ چل دیا۔ البتہ بِل دیتے میں نے اسی ویٹر کو تھوڑی ٹِپ دے دی۔ وہ خوش ہوگیا۔

رات کافی پیتے میں نے نئی زبانیں سیکھنے سے توبہ کر لی۔ عہد کیا کہ جیسا ہے ویسا ہی ٹھیک ہے۔ ہوٹل پہنچ کر سو گیا۔ ابھی اُٹھ کر نئچے آیا تو ریسپشن پر کھڑی ڈینش لڑکی نے مجھے اپنی زبان میں کچھ کہا جسے دیکھ کر مجھے پھر سے محسوس ہوا کہ یہ بہت خوبصورت زبان ہے۔ کوشش کرکے تھوڑی سیکھنا چاہئیے۔ بولی "مورمڈ"۔ یعنی ناشتہ کرنا ہے؟ میں نے ڈینش میں کہا "جا" مطلب یس۔ اس نے سمائل دی تو گڈ مارننگ ہوگئی۔ باہر سردی و ہلکی بارش کے بعد دھوپ نکل آئی ہے۔

Check Also

Propoganda War (3)

By Syed Mehdi Bukhari