Phish Phish
پھش پھش
مغرب کا وقت تھا۔ میں کوئٹہ میں سریاب روڈ کے اطراف یونہی بے مقصد پیدل آوارگی کر رہا تھا۔ ماضی کے کوئٹہ کو یاد کرتے اپنے خیالوں میں چلا جا رہا تھا۔ یکایک کسی نے پیچھے سے میرے کان کے قریب آ کر آواز نکالی "پھش پھش" صاحبو میرا تو تراہ ہی نکل گیا۔ ایک تو آپ بے خیالی میں چل رہے ہوں، دوجا کوئٹہ سریاب روڈ پر چل رہے ہوں۔
جہاں کچھ عرصہ پہلے تک امن و امان کی صورتحال اتنی ناقص تھی کہ آئے دن ٹی وی چینلز پر سرخ پٹی سریاب روڈ کے نام سے چلا کرتی تھی۔ میں نے یکدم گھبرا کر مڑ کے دیکھا تو ایک پشتون درمیانی عمر کا مرد تھا۔ کاندھے پر رومال، سر پر پٹھانی ٹوپی اور کالی سیاہ لمبی داڑھی۔ میں نے گھبرائے گھبرائے پوچھا "جی خان صاحب؟ اب کے خان صاحب نے مشکوک طریقے سے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی سے اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے فرمایا "ٹش مش کروائے گا؟
ایک تو خان صاحب رات کے پھیلتے سائے میں داڑھی کھجاتے ویسے ہی عجب لگ رہے تھے، اوپر سے مجھے ان کی قطعی طور پر سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ "پھش پھش" اور "ٹش مش کروائے گا؟ کا مطلب کیا ہے۔ میرے ذہن میں کھڑے کھڑے ان چند سیکنڈز میں کئی گمان گزر گئے۔ سچ پوچھیں تو میں ان کو یہ کہنا چاہتا تھا کہ "نہیں میں اس طرح کا نہیں ہوں، جاو اپنا کام کرو۔
جب خان صاحب نے مجھے شش و پنج میں مبتلا حیران دیکھا تو خود ہی بول پڑے " پالش؟ یہ سنتے ہی میں نے بغور دیکھا تو ان کے کاندھے پر لکڑی کا صندوق بھی لٹک رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ پالش والا ہے۔ جان میں جان آئی۔ میں نے انہیں کہا کہ نہیں خان صاحب پالش نہیں کروانی مگر یہ پھش پھش اور ٹش مش کا مطلب پالش کب سے ہو گیا؟
سن کر بولے " یہ ہمارا کوڈ ورڈ ہے، راہ چلتے ایسی آواز نکالتا ہے تو لوگ سمجھ جاتا ہے کہ پالش والا جا رہا ہے۔ میں ان کی دلیل اور لوگوں کی سمجھ پر مزید حیران نہیں ہونا چاہتا تھا سو چل دیا۔ وہ دو قدم ساتھ چلے اور پھر بولے" اپنا جوتا دیکھو کتنا گندا ہو گیا ہے۔ میں نے شوز پر نظر دوڑائی تو وہ سچ میں دھول مٹی سے اٹ کر سفید رنگ کے ہو چکے تھے۔
یوں تو بوٹ کالے تھے، مگر سارا دن ریتلے علاقے میں پھرنے کی وجہ سے ان پر ریت اور بھربھری مٹی جم چکی تھی۔ اس سے قبل کہ میں ہاں میں جواب دیتا خان صاحب پھر بولے " ایسا پالش کرے گا، ایسا پالش کرے گا، قسم خدا کا ایسا پالش کرے گا کہ تم اپنا جوتا میں دیکھ کر کنگھی کر سکے گا۔ اس قدر بااعتماد لہجہ اور ایسی بھرپور قسم سن کر میں نے جوتے اتار دیئے۔
سڑک کنارے کھڑے کھڑے جوتے پالش ہونے لگے۔ خان صاحب پھر بولے " کوئٹہ میں تم کدھر رہتا ہے؟ میں نے کہا کہ میں مہمان ہوں کام کے سلسلے میں آیا ہوں، کینٹ میں رکا ہوا ہوں۔ کوئٹہ میں کینٹ کے سوا اور ہے ہی کیا؟ یہ سن کر خان صاحب کی آواز پھر گونجی " کینٹ میں ہم نے بہت عرصہ پالش کیا ہے، پہلے سختی نہیں ہوتا تھا، اب بہت سختی ہو گیا ہے، اب انٹری پاس کے بنا گھسنے نہیں دیتا۔
میں نے یہ سن کر از رہ مزاق کہا " کوئی بات نہیں خان صاحب، کینٹ والوں کی پالش کے لئے بہت لوگ موجود ہیں۔ خان سن کر ایک منٹ چپ کر کے پالش کرتا رہا پھر اچانک ہی ہنسنے لگا۔ ہنستے ہنستے بولا " تمہارا بات ام کو اب سمجھ آیا اے، میں نے اسی میں غنیمت جانی کہ بوٹ پہنوں اور چلتا بنوں کہیں خان کو زیادہ ہی سمجھ نہ آ گئی ہو۔ جب میں بوٹ پہن کر رخصت ہوا تو خان چلتا جا رہا تھا اور بولتا جا رہا تھا "پھش پھش"۔