Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Naye Chief Ki Taainati

Naye Chief Ki Taainati

نۓ چیف کی تعیناتی

باجوہ صاحب تاریخ میں اچھے نام سے یاد نہیں رکھے جائیں گے اور مجھے یقین ہے کہ وہ یہاں رہیں گے بھی نہیں کسی اور ملک روانہ ہو جائیں گے۔ ان کے چھ سالہ دور میں یہ سب کیوں ہوا؟ اس کی وجہ باجوہ صاحب سے زیادہ ان کے سسر محترم ہیں۔ سسر صاحب ہی ان کے گاڈ فادر تھے، انہوں نے ہی ان کو پالا، پھر اپنی دختر کے ساتھ نکاح بھی کروایا اور وہی آج تک ان کو ہدایات دیتے رہے۔ سسر صاحب ہی نے لندن کے دورے کیے۔ ڈیلز کیں۔ وہ خود کو کنگ میکر کہتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سیاسی جماعت باجوہ صاحب سے متنفر ہوگئی۔

آخر تک ان کی کوشش رہی کہ کسی طرح ایکسٹینشن مل سکے۔ اس سلسلے میں ان کی ڈیل ہو چکی تھی مگر خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ادارے کے پیٹی بھائیوں نے باجوہ صاحب کو میسج دے دیا کہ بس اب اور نہیں چل سکتا اور اس میسج کی ان کو توقع نہیں تھی۔ مگر پیٹی بھائیوں کی مجبوری یہ بن چکی تھی کہ فوج کا مورال اور کردار گر رہا تھا۔ عوامی رائے سخت متنفر ہو چکی تھی۔ فوج کے اندر آفیسرز میں بے چینی پھیل رہی تھی اور یوں باجوہ صاحب کی ڈیل کھوہ کھاتے پڑ گئی۔

اس کے بعد سر باجوہ نے سرتوڑ کوشش کی کہ وہ نہیں تو ان کا ہمراز یا نبض شناس بھائی چیف بن سکے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک نام کے لیے باقاعدہ لابنگ کی اور حکومتی جماعت سمیت شہباز شریف پر بھی دباؤ ڈالا گیا۔ رانا ثناءاللہ کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا آپ نام بھیجیں اور لابنگ کسی ایک نام کے لیے کریں۔ مزید برآں وزیراعظم کا بیان ہے کہ ہم پر دباؤ تھا مگر اس کے باوجود میرٹ پر تقرری کی ہے۔

یہ دباؤ ایک نام کے لیے ڈالا گیا تھا جن کے بارے سر باجوہ کو یقین تھا کہ میرے بعد یہ بنے تو کم از کم مجھے سکون سے رہنے دیا جائے گا اور میری رخصتی کے بعد میرے لیے کوئی مسائل کھڑے نہیں ہوں گے۔ جن مسائل سے وہ بچنا چاہتے تھے حکومتی اتحاد نے وہی مسائل کا پنڈورا باکس احمد نورانی کی سٹوری کی صورت مشتہر کر دیا۔ اس کے بعد باجوہ صاحب چاروں شانے چت ہو چکے تھے۔

نہ ان کی منشاء سے نیا چیف آیا ہے نہ وہ یہ چاہتے تھے۔ اس ضمن میں ایک بات کہتا چلوں کہ نواز شریف، آصف زرداری یا دیگران کو آپ چاہے جو مرضی کہہ لیں مگر یہ فیصلہ نواز شریف نے کیا تھا کہ اب کی بار چیف صرف میرٹ پر بنے گا۔ وہ یہ بھی کہہ چکے تھے کہ چیف جو بھی بنتا ہے وہ کسی کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ ان کو اپنے تجربات بھولے نہیں ہیں۔ یہ پروپیگنڈا کرنا کہ عاصم منیر ان کا فیورٹ ہے یہ لغو بات ہے۔

عاصم منیر کی جگہ کوئی اور ٹاپ پر ہوتے تو وہی ہوتے۔ اس سارے سلسلے میں پولیٹیکل میچورٹی کا مظاہرہ نون لیگ اور زرداری صاحب نے دکھایا ہے (چیف کی تعیناتی تک)۔ سر باجوہ جو کما گئے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ ان کا دور اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ عمران خان نے نئے چیف کی تقرری میں ٹانگ نہ اڑا کر بہت اچھا کیا ہے۔ اس کے سوا ان کے پاس چوائس بھی کوئی نہیں تھی۔ جنرل فیض تو بن نہیں سکتے تھے۔

نیا چیف جب آتا ہے اس کی سوچ کے مطابق پالیسی شفٹ بھی آتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ڈی جی آئی سمیت ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی ایم آئی کے تبادلے ہو سکتے ہیں۔ نیا چیف اپنی ہم مزاج ٹیم لاتا ہے۔ اس چیف پر اندرون سے سخت دباؤ ہے کہ ادارے کی امیج بلڈنگ کرنا ہے اور اس تاثر کو زائل کرنا ہے کہ ادارہ کنگ میکر ہے یا ڈیل بریکر ہے۔ چیف کسی کا نہیں ہوتا سوائے اپنے ادارے اور ادارے کے مفاد یا پالیسی کے۔

آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے وہ تو وقت بتائے گا مگر موہوم سی امید ہے کہ حالات کچھ بہتری کی جانب جا سکتے ہیں۔ یہاں بہتری سے مراد سیاسی استحکام یا الیکشنز یا سیاسی ڈیلز میں بہتری ہے میں معاشی بہتری کی بات نہیں کر رہا۔ انسان جتنا بھی طاقتور ہو ایک دن عہدے، جہان اور جوانی سے رخصت ہونا ہی ہوتا ہے۔ اختیار خدا کی دین ہوتی ہے اور اس پر وہ جواب طلبی کرے گا۔ انسانوں کا المیہ یہ ہے کہ موت، قبر و حشر کو بھول جاتے ہیں۔ پر چلو، اگلی منازل زیادہ اوکھی ہیں۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood