Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Naya Marrakesh

Naya Marrakesh

نیا مراکش

مراکش دو حصوں میں بٹا شہر ہے۔ ایک پرانا مراکش جیسے ہمارا پرانا لاہور ہے۔ ایک نیا مراکش۔ یہاں سب سے بڑی روایتی مارکیٹ جامع الفنا ہے جہاں یورپین اور امریکی سیاحوں کی بھرمار ہوتی ہے اور کیا مارکیٹ ہے اگر رش، ٹھیلوں اور تماشوں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے جیسے اندرون لاہور کوئی میلہ لگا ہو۔ مارکیٹ ایک کھلے چوک میں لگتی ہے جس کے اطراف میں تنگ گلیاں ہیں جن میں بائیک ہی چل سکتی ہے اور بائیک ہی چلتی ہے۔

ہاتھ سے بنی ریڑھیوں پر سامان کی رسد ہوتی ہے بالکل اپنے اندرن موچی دروازے جیسے۔ گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے ٹھیلے والوں نے چھتریاں لگا رکھی ہیں۔ سارا بازار سبز چھتریوں سے بھرا ہوا ہے جس کے سائے سائے چلتے رش اور شور میں آپ اگر آنکھیں موند لیں تو بالکل میری طرح ہی محسوس ہو گا جیسے آپ کہیں والڈ سٹی لاہور میں ہیں۔

مراکش کے لوگ بھی دو بڑی تقسیم کے ساتھ آباد ہیں۔ ایک وہ ہیں جو صحارا ریگستان سے آ کر آباد ہوئے۔ ان کی رنگت کالی ہے۔ زبان عربی ہے مگر موڈیفائڈ عربی جس میں گاف کا بھی ساونڈ ہے۔ ان کو صحرائی بولتے ہیں۔ نسل کے لحاظ سے یہ شمالی افریقین ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو شمالی افریقہ کے پہاڑوں سے آ کر آباد ہوئے۔ ان کی رنگت سانولی ہے یعنی قدرے کم کالے ہیں۔ ہمارے جیسے، اپنے اندرون کے لاہور جیسے۔ ان کی زبان بربر ہے۔

مراکش میں ہر شخص پانچ زبانیں جانتا ہے۔ بربر، عربی، فرنچ، انگلش اور سپینش۔ باقی آبادی اب مکس ہو چکی ہے۔ اگر آپ مرکزی مارکیٹ یعنی پرانے شہر کی فوڈ سٹریٹ جامع الفنا کو نکل جائیں تو آپ کو وہاں ایسی گہما گہمی ملے گی کہ پورا دن آپ وہاں گھومتے پھرتے بسر کر سکتے ہیں۔ مول تول میں یہ لوگ بالکل اپنے پشاور جیسے ہیں۔ 20 درہم کی چیز کو 5 درہم میں بھی بیچ دیں گے۔ ان سے بھاو تاؤ کرنا بھی ویسا ہی فن ہے جیسے ہم پھیری باز پٹھانوں سے کرتے ہیں۔ رنگت کے علاوہ ان میں اور اپنے پٹھان بھائیوں میں کوئی فرق نہیں۔

میں شام کو ہوٹل سے نکلا اور پانچ، چھ کلومیٹر چلتا چلتا مارکیٹ پہنچ گیا۔ طرح طرح کے شربتوں کے ٹھیلے تھے، باربی کیو تھا، فریش جوسز، فروٹ، اور کھانے پینے کو پتا نہیں کیا کیا آئیٹم ہے؟ ایک ٹھیلے والی نے مجھے دیکھتے ہی کہا "خوش آمدید"۔ میں چونکا کہ اس کو اردو کیسے آتی ہے؟ پھر ذہن میں آیا کہ یہ فارسی کا لفظ ہے شاید ان کو فارسی آتی ہو۔ اگلے ہی لمحے وہ گنگنانے لگی "بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے"۔

میں نے کھلے ہوئے منہ کے ساتھ ارد گرد دیکھا کہ یہ کس کو دیکھ کر گنگنا رہی ہے؟ اس کی ساری توجہ میری طرف تھی۔ پھر اس نے گانا بدلا اور گانے لگی "آئے ہو میری زندگی میں تم بہار بن کے"۔ اب کی بار میں مکمل حیران رہ گیا۔ پل بھر کو مجھے لگا جیسے یہ بائیس تئیس سالہ سانولی افریقی دوشیزہ شاید میرے لئے ہی مراکش کے اس بازار میں اتاری گئی اور یہ نامعلوم کتنے سالوں سے میری راہ دیکھ رہی تھی۔

گانے کے دو بول گنگنا کر وہ بولی "کھانا میرے پاس کھاؤ، ادھر آ جاؤ"۔ اتنی صاف اردو افریقی النسل لڑکی کے منہ سے سن کر اب مجھے پکا یقین ہو چلا کہ اس نے میری راہ تکتے تکتے میری زبان بھی سیکھ لی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا وہ انگلش میں بول پڑی کہ "کھانا تو تم یہاں سے ہی کھاؤ میرا بار بی کیو بیسٹ ہے ساری مارکیٹ میں " ساتھ ہی اس نے قاتل قسم کی مسکراہٹ دے دی۔

میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ یہ کون مجھے مل گئی کہ برابر والے ٹھیلے سے ایک درمیانی عمر کا مرد میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اردو میں بولا "خوش آمدید"، شربت آپ کے لئے یہاں پیش ہے "اور ساتھ ہی اس نے جھکتے ہوئے دائیں بازو سے اپنے ٹھیلے کی طرف اشارہ کر دیا۔ اتنے میں ساتھ والے ایک اور ٹھیلے سے آواز آئی "سیدی، ہمارے پاس دنیا کے بہترین گھونگھے snails ہیں۔ ایک بار ٹرائی کر کے دیکھو"۔

اب مجھے شک ہونے لگا کہ ریڑھی بانوں نے سیاحوں سے ڈیل کر کر کے اردو بھی تھوڑی بہت سیکھ لی ہے۔ اتنی ہی جس سے ان کا کام چل سکے۔ بالی وڈ کا بہت اثر رسوخ ہے تو گانے بھی دو چار سیکھ لئے ہیں جو گنگنا کر یہ سیاحوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ میں وہاں سے چلنے لگا تو افریقی دوشیزہ بولی "اگر میرے پاس کھانا نہ کھایا تو میں ناراض ہو جاؤں گی" یہ کہتے ہوئے اس کے ماتھے پر تیوری چڑھ آئی ہے جیسے انتہائی بیزار ہو چکی ہو۔

میں نے اسے جواب دیا کہ "بھوک نہیں اور یہ تم جو پوری پوری بکرے کی سری سیخ پر لگا کر بھون رہی ہو یہ تو میں بالکل نہیں کھاتا"۔ اتنا کہنے کی دیر تھی کہ وہ آگے بڑھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولی "پندرہ درہم دے جاؤ جب بھوک لگے تب کھا لینا بہت مزیدار ہے" میں نے ہاتھ چھڑوایا تو اس نے بازو پکڑ لیا۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ مہدی بیٹا یہ لاہور ہی ہے۔ ٹیکنیکل فقیر چمٹ گیا ہے اس سے جان چھڑواؤ۔ میں نے پانچ درہم نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھے اور بولا بس یہی ہیں اور وہاں سے شوٹر نکل گیا۔

تھوڑا آگے گیا تو ایک اور افریقی لڑکی میری بلائیں لینے لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ "جان بہاراں، رشک چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن" گنگنانے لگتی میں نے اس سے منہ موڑا اور الٹی سمت چل پڑا۔ بازار میں چلتے میں یورپی سیاحوں کو مقامی تاجروں سے بھاؤ تاؤ کرتے دیکھتا رہا۔ یورپی بھی کیا مخلوق ہیں۔ مسکراتے مسکراتے لٹتے جاتے ہیں اور لٹ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ نوجوان یورپی جوڑے ڈالر لٹاتے جا رہے تھے۔

شام ڈھل رہی تھی۔ سورج کی کرنیں سنہری ہونے لگیں۔ بازار کا جوش بھی بڑھنے لگا۔ ڈھلتی شام کی سنہری کرنوں میں دو یورپی جوڑے بیچ بازار رقص کرنے لگے جن کو دیکھ کر مقامی افریقی تاجر تالیاں پیٹنے اور سیٹیاں مارنے لگے۔ یورپی جوڑوں نے جب اپنی Audience دیکھی تو رقص تیز کر دیا۔ شام ڈھلتی رہی۔ میں بیچ بازار کھڑا سوچتا رہا کہ زندگی کی ایک اور شام دیارِ غیر میں ڈھل رہی ہے۔

ایسی کتنی ہی شامیں بسر چکی ہیں جنہوں نے میرے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ میرا اپنا ملک خوبصورت ہے، اس کے بازار، چوک، چوراہے، لوگ خوبصورت ہیں مگر ہم پر ایسا ضیائی سایہ پڑا کہ تیس سالوں سے ہم آسیب زدہ ہیں۔ ہم سے لوگ ڈرتے ہیں۔ ہمارے میلے، ٹھیلے، رقص سب چھینے گئے، ہمارے فیسٹیولز فتوؤں کی زد میں آ گئے۔ اب وہاں مکمل خاموشی ہے، پورا ڈر ہے۔

سورج کی آخری کرنوں نے بازار کا الوداعی بوسہ لیا اور ٹھیلوں کے فانوس جلنے لگے۔ شام بجھ گئی۔

Check Also

Aqal o Be Aqli Do Kinare, Aik Darya

By Muhammad Saqib