Mujhe Tum Ne Kyun Bacha Liya
مجھے تم نے کیوں بچا لیا
کیسا المیہ ہے یہ جب بھی میں کسی ملک کے سیاحتی ٹور بارے لکھتا ہوں میرے انباکس میں میسجز کی لائن لگ جاتی ہے جن میں پوچھنے والے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں نے ویزا کیسے لے لیا ہے اور کیا میں اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد کر سکتا ہوں۔ جواباً پوچھوں کہ بھائی آپ ویزا کس مقصد کے لیے لینا چاہتے ہیں تو آگے سے اسمائلی کے ہمراہ جواب آتے ہیں" بس اس ملک سے کسی بھی طرح جانا ہے سر"۔
دنیا میں تین کاروبار سب سے منافع بخش ہیں۔ اسلحہ، منشیات اور انسانی اسمگلنگ۔ اسلحہ اور منشیات انسان کو ایک بار ہی جان سے مار دیتے ہیں مگر انسانی اسمگلنگ کا شکار اپنی بے کسی، پکڑے جانے کے خوف، بلیک میلنگ، بیگار مشقت اور مالی استحصال کے ہاتھوں روز جیتا روز مرتا ہے۔ لوگ بہتر اور محفوظ زندگی کے خواب کی تعبیر میں جس سفر پر روانہ ہوتے ہیں اس کا اختتام عموماً جہنم کے دروازے پر ہوتا ہے۔
پھر بھی ہر سال لاکھوں لوگ انسان نما بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ کے صرف خود کو نہیں اپنے خاندانوں کو بھی ذہنی سولی پر چڑھاتے ہیں۔ انسانی دکھ کے گارے سے اٹھائے اس حمام میں سبز باغ دکھانے والے ایجنٹوں سے لے کر خوش لباس اہلکاروں تک سب ننگے ہیں۔ یہ ایسا جال ہے جس میں پھنسنے والے سو میں سے صرف ایک شکار ہی سلامت نکلتا ہے۔
میں نے UNHCR کی رپورٹ پڑھی۔ گزشتہ برس چار لاکھ کے لگ بھگ افراد نے انسانی اسمگلروں کی مدد سے مختلف سمندر عبور کرکے اپنی سہانی منزل تک پہنچنے کی کوشش کی۔ ان میں سے دو لاکھ سات ہزار نے بحیرہ روم عبور کرکے لیبیا سے اٹلی پہنچے کی کوشش کی۔ بیاسی ہزار افراد چھوٹے بیڑوں پر سمندر عبور کرکے سپین پہنچے کے خواہاں تھے۔ چون ہزار نے خلیج بنگال عبور کرکے آسٹریلیا تک جانے کی کوشش کی۔ پانچ ہزار نے کریبئین ممالک سے بذریعہ سمندر امریکا داخل ہونے کی کوشش کی اور باقیوں نے ترکی و یونان کے درمیاں بحیرہ ایجین پار کرنے کی کوشش کی۔ ان سب میں ڈھائی لاکھ افراد نیوی یا کوسٹ گارڈز کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ دو ہزار سے زائد لوگ ڈوب گئے اور باقی جیسے تیسے ساحلوں پر پہنچے وہ مقامی اتھارٹیز کے ہاتھوں قید کر لیے گئے۔
زندگی اس قدر تنگ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 152 ممالک کا کوئی نہ کوئی شہری اس وقت 124 ممالک میں کہیں نہ کہیں اسمگل شدہ زندگی گزار رہا ہے۔ ان میں سے 53 فیصد تارکینِ وطن جنسی استحصال کا نشانہ بنتے ہیں اور چالیس فیصد مقررہ فی گھنٹہ چارجز سے تین تہائی کم معاوضہ لے کر ہینڈ ٹو ماؤتھ گزر بسر کرتے ہیں۔ صرف 7 فیصد ایسے ہوتے ہیں جو بالاخر اپنے من پسند ملک میں قانونی شہری بننے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
پاکستان سے یورپ اور مغربی ریاستوں میں اسمگل ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق پنجاب اور خیبر پختونخوا وغیرہ سے ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق اسمگلنگ ایجنٹ زیادہ تر گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاؤ الدین، سیالکوٹ اور آزاد کشمیر میں سرگرم ہیں اور ان علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو بیشتر ممالک نے ویزا بلیک لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث لوگ اپنے کلائنٹس کو گوادر سے اومان یا کوئٹہ سے ایران اور ترکی کے راستے یونان کی راہداری استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں صرف پاک ایران سرحد غیر قانونی طور پر عبور کرنے والے تقریباً 62 ہزار افراد کو روکا گیا۔
کوئی حل ہے؟ کہتے ہیں کہ بنیادی سہولتیں مل جائیں تو کون اپنی جنم بھومی چھوڑتا ہے اور بنیادی سہولتیں نہ بھی ملیں تو بھی بہت کم لوگ زمین چھوڑیں اگر فوڈ سیکیورٹی اور امن و امان ہی میسر آ جائے۔
یوٹیوب پر بی بی سی فور کی ڈاکومنٹری دیکھی۔ تیل سے مالا مال مگر سب سے کرپٹ افریقی ملک نائجیریا کی ایک نوجوان لڑکی کو جب برطانوی کوسٹ گارڈز نے کشتی ڈوبنے کے بعد ریسکیو کرکے سمندر سے نکالا تو وہ چیخ رہی تھی "اگر میں اپنے ملک میں خوش ہوتی تو ماں کو پیچھے چھوڑ کے راستے میں ریپ، جبری مشقت اور موت کے خوف کے باوجود مستقبل کی تلاش میں کیوں نکلتی؟ مجھے تم نے کیوں بچا لیا کتو۔۔ "