Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Mount Fuji

Mount Fuji

ماؤنٹ فیوجی

ماؤنٹ فیوجی کے اطراف ایک iconic مقام ہے جسے Churieto Pagoda کہتے ہیں۔ یہ یادگار جنگ عظیم دوئم میں اس ایریا سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کی یاد میں سنہ 1963 میں بنائی گئی۔ پگوڈا (یادگار) جاپانی سٹائل کی ہے اور اس پگوڈا کے عین پیچھے ماؤنٹ فیوجی کھڑا نظر آتا ہے۔ پگوڈا کے ساتھ ماؤنٹ فیوجی کی تصویر جاپان کا سمبل بن چکی ہے۔ یہ یادگار پہاڑ پر واقع ہے جہاں تک رسائی کے لیے دو مرحلوں میں سیڑھیاں چڑھنا پڑتیں ہیں۔ پہلے مرحلے میں لگ بھگ پینتیس سیڑھیاں ہیں جو بہت عمودی (اونچی) ہیں۔ دوسرے مرحلے میں 398 سیڑھیاں ہیں۔ کم و بیش سوا چار سو سیڑھیاں چڑھتے آپ اس مقام تک پہنچتے ہیں جہاں سے نظارہ/تصویر جاپان کی پہچان ہے۔

میں منہ اندھیرے ہوٹل سے نکلا تھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ ساڑھے صبح پانچ بجے سے پہلے نہیں چلا کرتی۔ طلوع آفتاب کا وقت 5: 21 تھا۔ مجھے طلوع آفتاب سے قبل پگوڈا کے مقام پر پہنچنا تھا تاکہ رش بھی نہ ملے اور فوٹوگرافی کا اصل وقت بھی وہی ہوتا ہے۔ ماؤنٹ فیوجی کی چوٹی پر سورج کی پہلی کرن اُترے تو منظر کا حُسن سو گنا بڑھ جاتا ہے۔ جاپان میں ٹیکسی بہت مہنگی ہے مگر مجبوری تھی۔ ٹیکسی بلا لی۔ ہوٹل سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ٹیکسی ڈراپ پوائنٹ تک پہنچنے کے 6700 ین (تیرہ ہزار پاکستانی روپے) کا بل بن گیا۔ اپنی تو بل دیکھ کر ہی کھٹ گئی تھی اور پھر مجھے سوا چار سو سیڑھیوں کا سامنا تھا۔

وہیں ایک سنگاپوری ملا۔ موٹا تازہ فربہ۔ چشمہ لگائے کیوٹ سا تھا۔ بات شروع ہوگئی۔ ساتھ ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ سیاح موجود تھے جو اوپر جا رہے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد فوٹوگرافرز کی تھی۔ اس سنگاپوری نے بھی گلے میں کیمرا ڈال رکھا تھا۔ بات شروع ہوئی تو وہ بھی اپنے جیسا نکلا۔ کئی ملک گھوم چکا ہے اور اکیلا ہی سفر کرتا ہے۔ میں سموکر ہوں اس وجہ سے سانس پھولتا ہے۔ وہ موٹا تازہ تھا اس وجہ سے چار سیڑھیاں چڑھ کر ہانپ گیا۔ ہماری فریکوئنسی بھی میچ کر گئی تھی۔ گفتگو بڑھنے کی اصل وجہ یہی تھی کہ اس کی بھی دس سیڑھیاں چڑھ کر کھٹ جاتی تھی اور میری بھی۔

ابھی اسی نوے سیڑھیاں ہی چڑھے ہوں گے کہ اس کا ضبط جواب دے گیا۔ پانی کی بوتل وہ ختم کر بیٹھا تھا۔ گلہ اس کا سوکھ جاتا تھا۔ میں نے اپنی بوتل دے دی وہ بھی ایک سانس میں ڈکار گیا اور پھر ہر سٹپ پر F ورڈ بولتا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر اور منہ سے نکلتے ایف ورڈ سُن کر میری ہنسی چھوٹ جاتی۔ آتے جاتے سیاحوں کو بھی کہتا" ف" دس مین۔ " لوگ ہنس پڑتے۔ کئیوں نے اسے حوصلہ دیا کہ بس ہمت کرو۔ ایک بار اوپر پہنچ جاؤ گے تو طبیعت فریش ہو جائے گی۔ وہ جواباً ف ورڈ والی گالی دیتا اور پھر کہتا اگر اوپر سے منظر "ورتھ" نہ کرتا ملا تو میں نے سچ مچ میں رونے لگ جانا ہے۔

ایک ایک سیڑھی چڑھ کے سفر کٹتا رہا۔ آدھا سفر کٹا ہوگا کہ اس کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ اس کے منہ سے اب ایک لفظ بھی نہیں نکل پا رہا تھا۔ ایک سیاح نے اسے اپنی پانی کی بوتل دے دی۔ چند منٹ بیٹھا رہا۔ میں اسے تسلی دینے کو کہتا رہا کہ آدھا ہوگیا ہے بس آہستہ آہستہ چلو باقی بھی کٹ جائے گا۔ چند منٹس بتانے کے بعد اس کا سانس بحال ہوا۔ وہ پھر سیڑھیوں کو کوسنے لگ گیا۔

جب ہم بلآخر سوا چار سو سیڑھیاں چڑھ کر پگوڈا پر پہنچ گئے تو اس کی حالت یوں تھی کہ زمین پر لیٹ گیا تھا۔ اس کے گردا گرد لوگ جمع ہو کر اس کی طبیعت کا پوچھ رہے تھے۔ سورج نکلنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا کہ کچھ دیر میں سیٹ ہو جائے گا اور فوٹوگرافی میں مشغول ہوگیا۔ پندرہ بیس منٹ بعد وہ اچانک پھر سے آن ملا۔ مجھے بولا " تم کیسے دوست ہوئے مجھے چھوڑ کر نکل گئے؟"۔ میں نے ہنس کے کہا کہ میں فوٹوگرافر ہوں۔ وقت نکلا جا رہا تھا۔ فوٹوگرافر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت کسی کا دوست نہیں ہوتا۔

قہقہہ لگا کر بولا " ف یو مین"۔ جیسے جیسے دن نکلتا گیا رش بڑھتا گیا۔ پھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ سیڑھیاں اُترتے اس کو یہ مسئلہ پیش آنے لگا کہ اس کے جسمانی وزن کے سبب اس کے گھٹنے شل ہو رہے تھے۔ خیر، آہستہ آہستہ اُترتے بلآخر اُتر ہی گئے اور پھر راہیں جدا ہونے کی گھڑی آ گئی۔ میں نے اسے گڈ بائے کہا تو اس نے آگے بڑھ کے گلے سے لگا لیا۔ میرا نمبر لیا۔ شکریہ ادا کیا اور چلتے ہوئے بولا " سنگارپور میں انتظار رہے گا۔ میرے پاس ضرور آنا۔ "۔

وہ پھر چلا گیا۔ میں اپنے ہوٹل آ گیا۔ ہوٹل پہنچ کر موبائل دیکھا تو اس پر میسج ملا ہوا تھا جس میں پھر سے لمبا چوڑا شکریہ تھا اور ساتھ کہہ رہا تھا " میں نے گوگل سے دیکھا تو پتہ چلا پاکستان میں دنیا کی پانچ بلند چوٹیاں ہیں۔ تم وہ چھوڑ کر یہاں کیا کر رہے ہو۔ یا سب دیکھ چکے ہو؟"۔ میں نے جواب دیا کہ دیکھ چکا ہوں۔ اب تم پاکستان آؤ تو مجھے بتانا۔

سفر کی یہی خوبصورتی ہے کہ بڑے کردار ملتے ہیں۔ دنیا میں بسنے والا ہر انسان منفرد ہے۔ سفر کا المیہ بھی یہ ہے کہ سب نے کسی نہ کسی موڑ پر جدا ہونا ہے اور پھر اگلے موڑ پر کوئی نیا راہی ہمراہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ روز مجھے ایک بھوٹانی شخص ملا جو ٹورسٹ تھا۔ اچھا بھلا خوش لباس تھا۔ اول تو جاپان میں کچرا ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا مگر وہ مقامات جہاں دنیا بھر سے ہر قماش کے ٹورسٹ آتے ہیں وہاں اکا دکا کچھ راہ میں پڑا نظر آ جاتا ہے۔ وہ ہاتھ میں شاپر بیگ تھامے راہ چلتے جو ذرا سا بھی کچرا، ریپر یا سگریٹ کا ٹوٹا نظر آتا وہ اُٹھا کر شاپر میں ڈالتا جاتا۔ میں اس کو دیکھتا رہا۔ مجھے یہ شکل و صورت سے جاپانی لگا نہ ہی ملازم لگا۔ ملازمین نے یونیفارم جیکٹ پہن رکھی ہوتی ہے۔ میں نے اس کے پاس جا کر پوچھا کہاں سے ہو؟ بولا "بھوٹان سے"۔ میں نے پھر پوچھا" کچرا کیوں اٹھا رہے ہیں آپ؟"۔ اس نے کہا کہ وہ بدھ مذہب کا پکا فالور ہے اور یہ اس کے مذہب میں چلتے پھرتے آسان عبادت ہے۔

کبھی کبھی رات کو سونے سے قبل آنکھیں بند کروں تو سفری شام میں بیتے لمحے، ہنستے روتے لوگ، وادیاں، صحرا، جیپوں کا شور، جنگل، پرانے کچے پکے گھر، دریاؤں کے کنارے، سمندروں کی نمکین باس، پربت، جھرنے اور چپ راتوں میں لگا تنہا کیمپ سب یاد آنے لگتے ہیں۔ انسان فطرت کو اپنے اندر جذب کرتے کرتے کبھی زندگی کی اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے کہ فطرت اسے اپنے اندر جذب کرنے لگتی ہے اور وه لمحہ بہ لمحہ، یاد بہ یاد، فنا ہوتا جاتا ہے۔ ایک نطفے سے پیدا ہو کر خاک میں مل کر نائیٹروجن بننے تک کا سارا سفر، تحلیل ہونے کا مرحلہ ہی تو ہے۔ خلیہ بہ خلیہ۔ فطرت کو اپنے اندر سمونے کی چاه میں مگن لوگوں کو اصل میں فطرت اپنے اندر سمو لیتی ہے۔

تصویر کش ایک ثانوی فن ہے۔ اصل تو سفر ہے جو انسان کو شعور بخشتا ہے۔ دوسروں کے بارے جاننے کا موقع ملتا ہے۔ کئی کہانیاں سنائی دیتی ہیں، کئی رسم و رواج دکھائی دیتے ہیں۔ کئی ہمسفر ہمیشہ یاد رہتے ہیں، تو کئیوں سے انسان اسی وقت فرار ہو جاتا ہے۔ ہم مزاج ملے نہ ملے سفر کا سارا مزہ دوسروں کو جاننے میں ہے۔

Check Also

Bunyan Marsoos, Masla Kashmir Aur Trump

By Shafaqat Abbasi