Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Mohallon Mein Khan Sahib Ka Qaleen Bechna

Mohallon Mein Khan Sahib Ka Qaleen Bechna

محلوں میں خان صاحب کا قالین بیچنا

آپ کو یاد ہو یا نہ ہو مگر مجھے یاد ہے۔ گئے وقتوں میں گلی محلوں میں قالین و دیگر ضروریات زندگی بیچنے کو خان صاحب آیا کرتے تھے۔ گھروں میں خواتین امور خانہ داری میں مصروف ہوتیں۔ ان کی انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بھی خان صاحب ہوتے۔ کوئی محلے کی خالہ جان پوچھتیں"خان صاحب قالین کتنے کا دے گا؟" خان صاحب بولتے "قسم خدا کا باجی ایرانی پیس ہے۔ پانچ ہزار سے ایک آنہ کم نہیں دے گا۔ مال میں کھوٹ نکلا تو واپس لے گا۔ ایک پائی بھی اضافی ہم پہ حرام سمجھو باجی۔ لے لو"۔

خالہ نے تو بس برائے وقت گزاری ریٹ ہی پوچھنا ہوتا تھا۔ اِدھر خالہ کہتی "نہیں نہیں بہت زیادہ ہے" اُدھر خان صاحب مقدس قسمیں اٹھاتے جاتے۔ آخر خالہ جان چھڑانے کو ایسے دام بتاتی کہ جس کے بعد بات ختم ہو جائے۔ لینا تو خالہ نے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ بحت مباحثے کے بعد کہتی "ایک ہزار کا دینا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ جاؤ"۔ یہ سُن کر خان صاحب کانوں کو ہاتھ لگاتے "توبہ توبہ، باجی یہ کیسا بات کیا تم نے۔ چوری کا مال نئیں بیچتی۔ استغفراللہ"۔ خالہ دروازہ بند کر کے گھر کے اندر چلی جاتی۔

اُدھر خان صاحب گلی کی نکڑ پر کھڑے دو منٹ سوچتے۔ پلٹ کے واپس آتے۔ خالہ کا دروازہ بجاتے۔ خالہ جیسے ہی باہر نکلتی خان صاحب بولتے "چلو دیا باجی۔ لاؤ ہزار روپیہ دو۔ قسم خدا کا باجی یہ تحفہ سمجھ کے دیتی تم کو ورنہ ہزار میں ایرانی قالین کدھر ملتی باجی"۔ خالہ نے چونکہ قالین لینا ہی نہیں ہوتا لہٰذا اب خالہ کو مشکل پڑ جاتی۔ بلآخر خالہ بے دید ہو کے کہتی " نہیں خان صاحب۔ پانچ سو سے زیادہ نہیں دوں گی۔ " خان صاحب یہ سُنتے ہی غصے سے لال پیلے ہونے لگتے "او باجی۔ جاؤ کام کرو۔ اپنا بی وقت ضائع کرتی میرا بھی کرتی"۔

خان صاحب پھر گلی کی نکڑ پر پہنچ کر پانچ منٹ سوچتے۔ اِدھر اُدھر دوسرے گھروں کی خواتین کو آوازیں لگاتے "لے لو باجی۔ قسم خدا کا ایک نمبر ایرانی مال اے"۔ جب کچھ بن نہ پڑتا تو خان صاحب واپس ہوتے۔ خالہ کا دروازہ بجاتے۔ خالہ اندر سے ہی جھانک کر دیکھتی اور پھر باہر نہیں نکلتی۔ خان صاحب دروازہ چار پانچ بار بجاتے۔ پھر تھک ہار کر مایوس ہو جاتے اور آسمان کی جانب منہ اُٹھا کر کہتے "ام سے اب بات ہی نہیں کرتا ہم اِدھر کیا کرے۔ "

گھر کے اندر سے خالہ جب خان صاحب کو بلآخر جاتا دیکھتی تو بولتی "آخر مگروں لے ای گیا" (آخر جان چھوڑ ہی گیا)۔ دوسری جانب خان صاحب جاتے جاتے بڑبڑاتے "تم کو اب کل دیکھتی۔ چھوڑے گی نئیں تم کو باجی۔ " اگلے روز یہ سارا کھیل پھرے سے شروع ہو جاتا مگر اس فرق کے ساتھ کہ اب کے خان صاحب قالین کی قیمت دس ہزار سے شروع کرتے کہ یہ وہ قالین نہیں اس سے بھی زیادہ ٹاپ کوالٹی کا مال ہے اور خالہ اس کا ریٹ دو ہزار لگاتی۔ اور پھر ایک دن وہ بھی آ جاتا کہ خان صاحب پانچ سو میں قالین بیچ دیتے۔ خالہ خرید لیتی۔

Check Also

May, Teer e Neem Kash

By Irfan Siddiqui