Masail Kya Tumhari Wajah Se Hain?
مسائل کیا تمہاری وجہ سے ہیں؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اوور سیز پاکستانیوں کی اکثریت خان صاحب سے رومانس میں مبتلا ہے۔ میں بھی کوئی ایسا اصولی آدمی نہیں کہ سیدھی باتیں سنا کر ان دوستوں کا اپنے میزبانوں کا نشہ ہرن کر دوں اور یوں اپنے سفری اخراجات میں بیش بہا اضافہ کر لوں۔ لگ بھگ دو ہفتے ہونے کو آئے ہیں میں بہت سے پاکستانیوں سے یورپ میں ملا ہوں اور ان سب نے مجھے بہت عزت دی ہے۔ سنہ 2019 کے بعد میں اب یورپ کی جانب آیا ہوں۔ آخری بار جب آیا تھا تب اوور سیز پاکستانیوں کا جذبہ دیدنی تھا۔ خان صاحب کی حکومت تھی۔ ففتھ جنریشن وار کا زمانہ تھا۔ اب ان میں غصہ ہے اور غصہ ظاہر ہے اسی پر ہے جس پر کبھی آسرا تھا۔
چونکہ میں یہاں سیاست پر گفتگو کرنے نہیں آیا اس واسطے میں زیادہ تر گفتگو سنتا ہوں اور ہوں ہاں کر دیتا ہوں۔ کبھی ہنس دیتا ہوں اور کبھی بات بدلنے کو کوئی بات چھیڑ دیتا ہوں۔ یہ مجھ سے پاکستان کے سیاسی حالات جاننا چاہتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں بیرون ممالک بستے پاکستانیوں کی اکثریت پاکستان کے زمینی حقائق سے آشنا نہیں یا کم آشنا ہے۔ بہت کچھ ایسا سننے کو ملتا ہے جس کا کوئی سر پاؤں نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا کی جعلی خبروں کو یا یوٹیوبرز کی کہی بات کو حق سچ مان کر چل رہے ہوتے ہیں۔ بہت کچھ ایسا سُن کر بھی مسکرا کر چپ رہتا ہوں۔
مگر ایک صاحب سے ملاقات یاد رہے گی۔ وہ سیاست اور خان صاحب کو لے کر بہت جذباتی تھے۔ بات اس قدر قطعیت پسندی اور شدت جذبات سے کرتے جیسے حرف آخر ہو۔ جذبات میں بولے "آپ کو مریم کی وہ ٹویٹ یاد ہے جب عاصم منیر چھپ کر تین ماہ کے دورے پر امریکا گیا تھا؟"
میری جانے بلا کہ آرمی چیف کب خفیہ دورے پر امریکا گیا اور تین ماہ رہا۔ میں نے ہنس کے انکار میں سر ہلا دیا۔
"وہ خفیہ دورے پر امریکا گیا تھا بخاری صاحب، مریم نے ٹویٹ کرتے لکھا تھا "ہیلو عاصم کیسے ہو؟" اور پھر کچھ دیر بعد ٹویٹ ڈیلیٹ ہوگئی تھی۔ مگر لوگ تو سکرین شاٹ لے لیتے ہیں ناں"۔
"اچھا۔۔ مجھے اس کا نہیں معلوم"۔
"یہی تو بات ہے۔ ان کا گہرا تعلق ہے۔ ڈیل سے پہلے کا۔۔ "
اب یہ سُن کر میں نے موضوع بدلنا چاہا۔ مگر وہ فُل جوبن پر آ چکے تھے۔ اگلے دس منٹ مجھے ان کو سننا پڑا اور میں کہتا رہا "ٹھیک کہہ رہے، ایسا ہی ہے"۔ بلآخر ان کا آتش فشاں پھٹنے کے بعد تھما تو میں نے اجازت چاہی۔
یہ ہیں وہ سائیڈ افیکٹس جو بے قابو سوشل میڈیا، جعلی خبروں اور مردے کو لات مار کر زندہ کرنے (تحریک عدم اعتماد لانے) کے بعد وجود میں آئے ہیں اور یہ ایک عرصہ ایسے ہی رہیں گے۔ نیچرل ڈیتھ یہاں کسی کی ہونے نہیں دی گئی۔ جب سسٹم (فوج) جنبشِ ابرو سے ایک کو لاتا ہے اور دوسرے کو نکالتا ہے تو پھر غصہ، نفرت اور ڈس انفارمیشن ہی جنم لیتی ہے۔ وہ نواز شریف ہو، بینظیر ہو یا خان ہو۔ کورس کوریکشن کی جانب یہ نظام نہیں جاتا۔
میں بس کبھی کبھی یہ سوچ کر نفسیاتی طور پر اُلجھن کا شکار ہو جاتا ہوں کہ اس کا حل کیا ہے۔ کیا سیاسی شخصیات سے رومانس میں مبتلا ایک پورے طبقے پر ڈنڈا چلانا حل ہے یا یہ نفرت کی آگ میں تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ کیا کسی بھی جھوٹے سچے، جیسے تیسے بیانئیے کا کاؤنٹر بیانیئہ ہونا چاہئیے یا وقت خود ہی طے کرتا جائے گا جیسے چھہتر سال سے طے ہوتا آیا ہے۔ اس دوران ہم سب جل کڑھ کر، رولا لپا ڈال کر اگلے جہاں پہنچ جائیں گے اور پھر ہمارے بچوں کے لیے ان کے زمانے کی سیاسی شخصیات، آرمی چیف اور یہی نظام ہوگا۔
یہ سب سوچ کر جب میں تھک جاتا ہوں اور ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے تو پھر واصف علی واصف کی بات یاد آ جاتی ہے" یہ مسائل کیا تمہاری وجہ سے ہیں؟ اور کیا تمہارے چاہنے سے حل ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو چھوڑو، چائے پیو"۔