Maon Ka Aalmi Din
ماؤں کا عالمی دن
اماں کو بچھڑے تیرہ سال ہو چلے مگر آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہیں کہیں بیٹھی پیاز چھیل رہی ہوگی۔ ماں نے جب دل کی بھڑاس نکالنے کو رونا ہوتا تو وہ پیاز چھیلنے بیٹھ جاتیں۔ نہ پیاز کی پرتیں کھلنا کم پڑتیں نہ آنسو۔ شاید پرانے زمانے کی باہمت خواتین ایسے ہی بہانے سے رویا کرتی تھیں وگرنہ زمانے کو کیا جواب دیتیں۔ اس وقت مجھے کوفت ہوا کرتی کہ اماں نے پیاز چھیلنا ہے تو کچن میں جا کر چھیلیں ہماری آنکھوں کو تو معاف رکھیں۔ جب جب یوں کہتا تو اماں بولتی "مجھ سے اکیلے بیٹھے نہیں چھیلا جاتا"۔ اب لگتا ہے وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ مجھ سے اکیلے نہیں رویا جاتا۔
اماں کو بچھڑے دہائی سے زائد عرصہ بیت چلا اور اب پیاز ہی زندگی میں رہ گیا ہے۔ میں پیاز میں زندگی بسر کر رہا ہوں۔ اس معاشرے کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں اور آنسو بہے جاتے ہیں۔ ہر پرت کے نیچے ویسی ہی ایک پرت ملتی ہے فرق محظ ساخت کا ہوتا ہے۔ یہ معاشرا جس میں مجھے جذبات کے اظہار کا اذن ملا اول نمبر کا منافق معاشرہ ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ نگلا بھی نہیں جاتا اور اگلا بھی نہیں جا پاتا۔
اماں کو شوگر کا مرض تب لاحق ہوا جب نانی انتقال کر گئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1992 کی ایک سرد رات ٹیلی فون کال پر میرے والد کو نانی کے انتقال کی خبر ملی۔ ابا نے آدھی رات کو ہمیں نیند سے جگایا اور بنا کچھ بتائے تیار ہونے کا کہا۔ اماں گھبرا گئی تو ابا نے کہا کہ ماں جی کی طبیعت خراب ہوئی ہے ہسپتال داخل ہیں فکر نہ کرو سفر کی تیاری کرو۔ وہ رات اماں نے سفر میں روتے گزار دی اور جب میکے پہنچ کر منظر دیکھا تو تین دن صدمے سے کامے میں رہی۔
ایک طرف ننھیال میں جنازے کی فکر تھی اور دوسری طرف اماں گھر میں بیہوش پڑی تھی۔ صبح و شام ڈاکٹر آتا اور ڈرپ بدل جاتا۔ میں اماں کی چارپائی کے ساتھ ٹیک لگائے دن رات گزارتا رہا۔ تین دن بعد اماں کو ہوش تو آ گیا مگر اس دن کے کچھ عرصے بعد جب میں سکول سے واپس آیا تو اماں کو تھر تھر کانپتا دیکھا۔ جیسے تیسے کرکے ہسپتال پہنچایا تو انکشاف ہوا کہ شوگر لیول خطرناک حد تک گر چکا ہے۔
1992 سے 2010 تک اماں نے یہ سارے سال بطور سائنس ٹیچر سرکاری سکول میں نوکری کرتے گزارے۔ میں سکول کالج سے گھر آتا تو اماں بھی تب اسی وقت گھر پہنچتی۔ اس کے بعد گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا بنانے اور مجھے پڑھانے میں مغرب ہو جاتی۔ پھر رات کے کھانے کی تیاری اور برتنوں کی دھلائی وغیرہ وغیرہ۔ رات دس بجے سارے کاموں سے فارغ ہو کر بستر نصیب ہوتا۔
اس ساری مصروفیت اور انتھک مشقت کی وجہ سے شوگر اگنور ہوتی رہی اور پھر 2008 میں معلوم پڑا کہ اماں کے دونوں گردے ہائی شوگر لیول کی وجہ سے جواب دے چکے ہیں۔ نوبت ڈائلاسس پر پہنچی مگر اماں نے اس دردناک پراسس سے انکار کر دیا۔ جیسے تیسے کرکے منا کر زبردستی کرکے ڈائلاسس کے ساتھ ایک سال گزرا اور پھر ہسپتال میں 12 دنوں کے لمبے کامے میں ہارٹ اٹیک سے ان کا انتقال ہوگیا۔
اماں کو میں نے خود قبر میں اتارا اور خود ہاتھوں سے مٹی برابر کی۔ اماں کی اس ساری مشقت بھری زندگی میں انٹرٹینمنٹ یا میں تھا یا پی ٹی وی پر اصغر ندیم سید کے لکھے گئے ڈرامے جیسے ہوائیں، نجات، غلام گردش۔ اماں ان کی فین تھیں۔ میں نے جب یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو اصغر ندیم سید صاحب میرے کولیگ تھے۔ ہم دوپہروں کا کھانا میرے آفس میں مل کر کھایا کرتے اور حالات حاضرہ پر بات ہوتی رہتی۔ ایک دن میں نے ان سے کہا "شاہ جی میری اماں آپ کے ڈراموں کی فین تھیں"۔ شاہ جی مسکرائے اور بولے "ویکھ لے سوہنیا، میں اس اماں دے پتر دے کم دا فین آں" یہ ان کا میرے لئے نکلا جملہ میرے لئے اعزاز تھا۔ کاش میں اماں کو یہ بتا سکتا کہ شاید تھکی ہوئی روح سن کر مسکرا دیتی۔