Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Magar Aisa Bhi Kab Talak Chalega?

Magar Aisa Bhi Kab Talak Chalega?

مگر ایسا بھی کب تلک چلے گا؟

جس طرح ٹھوس ایک خاص درجہ حرارت پر مائع اور پھر مائع ایک خاص درجہ حرارت پر گیس میں تبدیل ہو جاتی ہے اسی طرح جب کسی شخص کو کئی برس سے لگا تار اپنے متعلق اہل محلہ سے بس برائیاں سننے کو ملیں تو وہ خود احتسابی پر غور کرنے کے بجائے کچھ عرصے توغصے میں کھولتا رہتا ہے۔ چند ماہ بعد یہ غصہ جھنجھلاہٹ میں بدل جاتا ہے اور رفتہ رفتہ جھنجھلاہٹ بے حسی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اس کے بعد اگر کوئی اپنا یا پرایا کسی بات یا خوبی کو سراہے بھی تو لگتا ہے کہ سراہنے والا طنز فرما رہا ہے۔ چنانچہ تعریف سن کر بھی تعریف کرنے والے کو کاٹ کھانے کا جی چاہتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب ایک مسلسل محروم شخص کو کوئی تحفہ اچانک ملے تو وہ یہ سوچ کر ڈر جاتا ہے کہ اس نوازش کے پیچھے بھی کوئی چال نہ ہو۔

یہ کیفیت کسی بھی ایسے فرد، سماج یا قوم پر طاری ہو سکتی ہے جنہیں ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ ہو نا ہو ہم دیدہ و نادیدہ قوتوں کے مسلسل محاصرے میں ہیں اور وہ ہماری تہذیب، معیشت، جغرافیے اور عقائد کے درپے ہے۔ اور اگر ہم سیدھے سیدھے زہر سے نہ مرے تو پھر ہمیں میٹھے میں چھپا کر زہر دیا جائے گا۔ لہٰذا خبردار کبھی کسی پر یقین نہ کرنا اور کسی بھی مہربانی کو شبہے کے عدسے سے گزارے بغیر قبول نہ کرنا۔

اس مسلسل کیفیت کے سبب فرد ہو یا قوم، دونوں کی خود اعتمادی اس طرح مجروح ہوتی ہے کہ اس کی واپسی نسلوں تک نہیں ہو پاتی۔ ایسے لوگ خود کو بیچارگی کی چادر میں لپیٹ کر تسکین پاتے ہیں۔ دکھڑوں کے نوالوں اور آہوں کے شربت پر گزارہ کرتے ہیں اور اگر کوئی انہیں اس کیفیت سے نکالنے کی کوشش بھی کرے تو پہلی گالی اس رضا کار کو ہی پڑتی ہے۔

مملکت خداداد پاکستان کو گڈ گورننس کو فروغ دینے سے اب تک کس نے روکا؟ سی آئی اے نے یا موساد نے؟ لوڈ شیڈنگ کی مار کون مار رہا ہے؟ Raw یا MI5؟ کرپشن اور ٹیکس چوری پر کون اکسا رہا ہے؟ رشین یا ہنگیرین سیکرٹ ایجنٹس؟ انتہا پسندی کی دیمک پر سپرے کرنے سے کون روک رہا ہے؟ چلی، روانڈا یا برونائی؟ ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل کو بے حال کس نے کیا؟ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں نے یا عالمی عدالتِ انصاف نے؟

چالیس فیصد پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کس نے بنگلہ دیش میں منتقل کی؟ تعلیم اور صحت پر رقم لگانے کے خلاف کون ہے؟ حکومتیں بنانے اور گرانے کے لئے سہولت کاری کون سرانجام دیتا ہے؟ امریکا یا یورپی یونین؟ ہم ہیں کہ اپنے لچھن اور چال ڈھال کی خبر لینے کے بجائے ساڑھے سات دہائیوں سے صرف واویلے پر واویلا مچائے ہوئے ہیں مگر کوئی یہ پہیلی بوجھنے کو تیار نہیں کہ آخر یہ سب ہمارے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے اور دنیا کو ہمیں برباد کر کے کیا حاصل ہونا ہے؟

ہمارے ہونے سے دنیا کو کیا نقصان ہے اور نہ ہونے سے دنیا کو کیا فائدہ ہو گا؟ جب کچھ سمجھ میں نہ آئے، جب چیزیں الٹی پڑنی لگیں، جب اپنے ہی کرتوتیں گلے کو آنے لگیں تو پھر ایک ہی راہِ نجات باقی بچتی ہے۔ کوئی قربانی کا بکرا تلاش کرو اور اپنی جھینپ اس کے سینگوں سے باندھ کر بیابان کی طرف ہنکال دو۔ مثلاً جو بھی ہمارے ہاں برا ہو رہا ہے اس کے پیچھے یخودی، امریکی، قادیانی، ہندو، نصاری، ملحد، کیمونسٹ سازش ہے۔

فرد یا قوم کو عظیم بننے کے لئے قابل بننا پڑتا ہے، ذمہ اٹھانا پڑتا ہے، اپنے حق کے لئے کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ محض رونے دھونے اور اپنے غلطیوں، کوتاہیوں، ناکامیوں اور گناہوں کا بوجھ دوسرے کے کاندھے پر ڈالنے سے بخشش نہیں ہو سکتی۔ اگر سقراط زہر کا پیالہ واپس کر دیتا، ابراہیمؑ آتشِ نمرود میں نہ کودتے، حسینؓ حالات ناموافق دیکھ کر یزید کی بیعت کا مطالبہ مان لیتے، گلیلیو چرچ کو لکھ کر دے دیتا کہ زمین فلیٹ ہے۔

بابر پانی پت میں رانا سانگا کا ایک لاکھ کا لشکر دیکھ کر پتلی گلی سے یوٹرن لے لیتا، جدید تعلیم کا تنہا وکیل سر سید احمد خانؒ درجنوں مولویوں کی بات مان لیتا کہ انگریزی پڑھنا کفر ہے، جناحؒ صاحب متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بننے کی پیش کش قبول کر لیتے، بھٹو رحم کی درخواست لکھ دیتا تو ہو سکتا ہے جان بچ جاتی، مگر ایسا کر کے یہ سب کردار کیسے عزت پاتے؟

ہم ہیں کہ اپنی ہر غلطی، گناہ، کمی کوتاہی کا جواز بیرونی سازش پر دھر کر خود کو مظلوم ظاہر کر کے عمر گذار رہے ہیں۔ مگر ایسا بھی کب تلک چلے گا؟

Check Also

Baap Ki Shafqat

By Mubashir Aziz