Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Lahore Kitab Melay

Lahore Kitab Melay

لاہور کتاب میلے

لاہور کُتب میلے پر دو بڑے پبلشر ہاؤسز کے مالکان سے بات چل پڑی تو انکشاف ہوا کہ ہر گزرتے سال کے ہمراہ کتب بینی میں کمی آ رہی ہے یا کتاب سے دوری بڑھ رہی ہے۔ اس کا انڈیکس فی الحال یہی تھا کہ اس سال گذشتہ سال کے مقابل کم کتب خریدی گئیں اور اسی طرح یہ روایت کُتب میلوں پر گذشتہ پانچ چھ سالوں سے جاری ہے۔ یعنی ہر سال کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ دوسرا پہلو اس بحث کا یہ بھی رہا کہ سرکار کی عدم دلچسپی کے سبب ایکسپو سینٹر میں سٹالز کے کرائے ہر سال بڑھتے جا رہے ہیں۔ اتنی بِکری نہیں ہو پاتی جتنا پانچ دن کے سٹال کا کرایہ بن جاتا ہے۔ پنجاب حکومت اگر دلچپسی لے کر کم از کم ہال کی فراہمی یقینی بنا دے تو پبلشرز کی کچھ تو حوصلہ افزائی ہو۔

کتاب اور بحث کا کلچر ٹھکانے لگا تو سچ، رواداری اور انسانی اقدار بھی رخصت ہونے لگیں۔ انہیں واپس لانا ہے تو کتابی کلچر واپس لانا ہوگا۔ کتابوں کو کم آمدنی والے قارئین و طلبا کے لیے بچانے کی آخری لڑائی کراچی اور لاہور کا اردو بازار، انارکلی کا فٹ پاتھ بازار اور ایک سرکاری ادارہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن لڑ رہے ہیں۔ مگر کب تک؟ اس حالت میں کتابی میلے کا سالانہ انعقاد بھی غنیمت جانیے۔

ویسے اصولاً ایسے دور میں اب ہم جیسوں کو بھی کتابی نوحہ گری اور دانشورانہ ریں ریں بند کر دینی چاہیے۔ مال وہی بکتا ہے جس کی کھپت ہو۔ اب موبائل فون، الیکٹرونک گیجٹس اور کمپیوٹر گیمز و سافٹ وئیرز کی خرید و فروخت کا دور ہے۔ مباحثوں کے امین سستے چائے خانوں کے بجائے برگر و پیزا شاپس، سجی ہاؤسز، جوس اور چکن تکے کا زمانہ ہے۔ وہاں آپ بیٹھتے ہیں، کھاتے ہیں اور کھانا ختم ہوتے ہی بل ادا کرکے نکل لیتے ہیں۔

ویٹر اور جگہ ملنے کے منتظر لوگوں کی گھورتی نگاہیں آپ کو منٹ بھر بھی فالتو نہیں بیٹھنے دیتیں۔ ایسے میں فکری بحث کے نام پر گھنٹوں بیٹھنے کی روایت کو رونے سے کیا حاصل؟ وہاں نوجوان کیرم کھیلتے ہیں، باس کی برائیاں کرتے ہیں، اگنور کرنے والی لڑکیوں کے کردار کا باآوازِ بلند ایکسرے سمجھاتے ہیں، گالیانہ مذاق چلتا ہے اور رات کے پچھلے پہر تھک ہار کے موٹر سائیکل کو کک لگا یہ جا وہ جا۔ کیونکہ اگلے دن پھر ضروری ہجوم کا حصہ بننا ہے۔

سینما تو ویسے کب کا زندگی سے نکل چکا۔ ڈالر کے بھاؤ نئی انگریزی کتاب کی خریداری کی لگژری بھی امیر کلاس کی گود میں جا بیٹھی۔ کیا باقی 23 کروڑ 50 لاکھ بیکار لوگوں کو سیاسی و سماجی و نظریاتی شعور دینے کے لیے آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس، ٹویٹریوں کے ٹویٹس، فوجی سلام میں جٹے نیوز چینلز، پارلیمانی دھما چوکڑی، اندھیرے میں تیر چلانے والے خارجہ پالیسی باز ریٹائرڈ و حاضر مبصرین اور جغرافیہ و تاریخ سے ناآشنا اینکرز و یوٹیوبرز وغیرہ کافی نہیں؟

اس ملک کے عام دماغوں کو مکمل بانجھیانے کا جو منصوبہ 1977 میں شروع کیا گیا تھا وہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا۔ اب تو ہر شے جواز و معنی و مقام بدل چکی ہے۔ جو جتنا بونا ہے اتنا ہی قد آور ہے، جتنا جاہل ہے اتنا ہی بڑا عالم ہے۔ کبھی یہ سماج بھی کم ازکم ذہنی اعتبار سے قدرے ترقی یافتہ تھا۔ آج ترقی باختہ ہے۔ جو چند گِنے چُنے دوست آس پاس رہ گئے ہیں ان کی خواہش ہے کہ ہم ایک نارمل قوم بن جائیں اور میرا جواب یہ ہے کہ جب فدوی نارمل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتا تو اسے بار بار نارمل ہونے پر مجبور نہ کیا جاوے۔

آج سے دو دہائی پہلے تھکی سے تھکی کتاب کا پہلا ایڈیشن کم از کم ایک ہزار کا چھاپا جاتا تھا۔ حالانکہ اس وقت آبادی اور شرحِ خواندگی بھی کم تھی۔ آج یہ حال ہے کہ 24 کروڑ کے ملک میں پبلشر خود منع کر دیتا ہے کہ پہلا ایڈیشن ڈھائی سو یا پانچ سو کا چھاپ لیں۔ نکل گیا تو دوسرا ایڈیشن بھی لے آئیں گے۔

جب پڑھنے کی روایت کو سننے سے اور سننے کی روایت کو بے ربط نان سٹاپ سنانے کے چلن سے بقائی خطرہ ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔ جب ہدف قوم کے بجائے ہجوم یا ریوڑ تیار کرنا ہو تو پھر کتاب کی گنجائش نہیں بچتی۔ کتاب سوال کو جنم دیتی ہے، سوال اٹھتا ہے تو فکری بحث کی روایت میں ڈھلتا ہے۔ ہمیں اب دونوں کی ہی ضرورت نہیں۔ دونوں ہی کب کے آؤٹ سورس ہو چکے۔

شہر میں کس کی خبر رکھیے، کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے، گھر کو چلیے

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam