Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Khushbu Aa Rahi Hai?

Khushbu Aa Rahi Hai?

خوشبو آرہی ہے؟

بیگم بھی کیا ہی معتقد العقدیدہ الشدیدہ القیدمہ الخالصہ و الپکی و الپختہ و السیمنٹیہ شدھۃً بریلوی ہیں۔ ابھی کچھ نفل وغیرہ پڑھ رہی تھی کہ چوکی چھوڑ کر بھاگی اور مجھے کہنے لگی " ایکدم گلابوں کی خوشبو آئی ناں؟ آئی ناں" میں نے حیران ہو کے پوچھا کہاں سے آ گئے گلاب آدھی رات کو؟ بولی"آپ کو خوشبو نہیں آ رہی اتنی تیز خوشبو ہے" میں نے فل مست ہو کر آنکھیں بند کرکے لمبا سانس کھینچا۔

نہیں، پر گلاب کہاں سے آ گئے؟ اس نے مجھے کیا ہی پیارا پیارا میٹھا میٹھا جواب دیا" گلاب کہاں سے آنے۔ بزرگ آئے ہیں۔ ہمارے پردادا جو تھے وہ ولی کامل تھے۔ ان کی روح اپنی اولاد کے گھروں میں کبھی کبھی تب چکر لگاتی ہے جب ان کی اولاد پریشان ہو۔ مجھے لگتا ہے ایکدم جو خوشبو آئی ہے وہ بزرگ آئے ہیں" یہ سُن کر میرے دانت بج اٹھے۔ میرے ناتواں بدن میں اتنی سکت تو نہیں کہ نیا محاذ اندرون خانہ کھول لوں۔

بڑی مشکل سے بستر سے اٹھ کر بیگم کی جائے نماز پر پہنچا اور آسمان کی جانب ہاتھ باندھ کر عرض کی " دادا جی اللہ دا واسطہ ٹُر جاؤ۔ ہور امتحان وچ نہ پاو مینوں۔ تُسی سچے او۔ اج تسی آپ آ گئے کل تہاڈی دھی نے کہنا اے کہ پردادا جی دے مزار تے چادر چڑھان کشمیر جانا فرض ہو گیا اے۔ مہربانی کرو، وزٹ شارٹ کرو، اور کیا کر سکتا ہے بندہ اِدھر۔

بیگم کی پہلے ہنسی نکلی پھر اسے سمجھ آئی کہ میں مزاق سمجھ کر جگت کر رہا ہوں تو اس سے بزرگوں کی توہین ہو رہی ہے۔ جب سمجھ آئی تو بولی " اگر بالکل ہی بے ایمان ہو چکے ہیں تو کم از کم چپ تو رہ سکتے ہیں۔ پہلے ہی بیماری مصیبت بن کر نازل ہوئی پڑی ہے۔ آپ مزید مصیبت کو بلاوا دے رہے ہیں" جب اس کا مزاج بگڑنے لگا تو اس سے قبل مزید بگڑ جاتا میں نے کہا " او ہو کیا ہو گیا بیگم۔

دادا حضور تو کشمیری ہیں ناں کیونکہ آپ لوگ تو کشمیری ہو۔ ان کو پنجابی کی کیا سمجھ آنی، سُن کر بولی " وہ بزرگ ہیں ساری زبانیں سمجھتے ہیں" میں نے فوراً نماز والی چوکی پر جا کر فریاد کی مائی ہولی فادر، پلیز فارگیو می۔ آئی ایم جسٹ یور سٹوپڈ اگنورینٹ چائلڈ۔ مے گاڈ بلیس یو آلویز بیگم کو پھر بھی تسلی نہیں ہوئی۔ دوائیاں کھا کھا کے آپ کے کپڑوں سے میڈیسنز کی سمل آ رہی ہے۔

آپ کو خوشبو کہاں سے آنی تھی" میں نے اچانک محسوس کیا کہ عین اسی لمحے اک خوشبو کا جھونکا سا آیا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میرا ناتواں بدن ڈر سے کانپنے لگا۔ بیگم بھی چلائی " دیکھا؟ آئی ناں پھر ابھی پھر آئی ناں؟ میرے سارے حواس الرٹ ہو گئے کہ آدھی رات کو خوشبو کا جھونکا کدھر سے آ رہا ہے۔ کمرے کی کھڑکی کی جانب بڑھا جو آدھ کھلی ہوئی تھی۔

وہاں سے دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ برابر والی گھر کی عقبی گلی میں لگے ہوئے علم (اہل تشیع گھرانہ ہے) کی پختہ چوکھٹ پر آنٹی اگر بتیاں جلا کر گئی ہوئی ہے۔ میں نے دو تین لمبی لمبی سانسیں بھریں اور میٹروملن کی خوشبو نس نس میں اتار کر بیگم کو بلایا۔ اسے "معجزہ" دکھایا اور بولا " بیگم یہ خوشبو آ رہی تھی تمہیں۔ امید ہے اب تم ویسی ہی خوشی میں سرشار رہو گی اور خوشبو ناگوار نہ گزرے گی۔

بیگم تو پھر بیگم ہوتی ہے۔ اپنی شکست تھوڑا مانتی ہیں۔ کھڑکی بند کرتے کہنے لگی" یہ اگر بتی کی خوشبو اور ہے۔ وہ تازہ گلابوں کی خوشبو تھی۔ آپ نے میری کبھی مانی بھی ہے؟ بعد ازاں بیگم مزید تفصیل بتاتے گویا ہوئی کہ بزرگوار کے پاس جنگل سے شیر آیا کرتا تھا۔ شیر ان کی کھولی کی رکھوالی کرتا تھا۔ جب وہ پردہ فرما گئے تو شیر ان کی قبر پر آتا رہا۔ پھر ایک دن شیر بھی پردہ فرما گیا۔

یہ داستان سن کر میں نے بیگم کو کہا "مولا کا بڑا کرم ہوا کہ آج بابا جی نہتے ہی وزٹ پر آئے۔ اگر شیر بھی ساتھ آتا تو میرا کیا حال کرتا۔ تم کو یہ بات پہلے بتانا چاہئیے تھی۔ کچھ تو میری جان کی پرواہ کر لیتی "بہر حال اس سارے قضئیے میں بابا جی کا وزٹ بھی ہو گیا ہے اور علم پاک کی زیارت بھی اور اپنی سست بیمار طبیعت بھی قدرے چوکنی ہوئی ہے۔

Check Also

Apni Jaron Se Miliye

By Arif Anis Malik