Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Khizan Mein Bhi Ye Aankhen

Khizan Mein Bhi Ye Aankhen

خزاں میں بھی یہ آنکھیں

شاید گذشتہ پندرہ سالوں میں یہ پہلی بار ہوگا کہ خزاں کے موسم میں گلگت بلتستان نہیں جا سکوں گا۔ ہر سال شمالی پہاڑوں پر خزاں مجھے بلاتی رہی ہے۔ مالی حالات جیسے بھی رہے ہوں میں جاتا رہا ہوں۔ گلگت بلتستان کی وادیوں اور باسیوں سے میرا تعلق گہرا اور عشق سے بھرپور ہے۔ ان کے گھروں میں مہمان رہا ہوں، ان کی دکانوں پر ان کی عدم موجودگی میں بیٹھا ہوں۔ جا بجا میرے تعلق استوار ہوئے۔ مائیں بنیں، بھائی بنے۔ وہاں کے ہوٹلز میں میرا ٹھہرنا ہو تو مجھے ان کو زبردستی بل دے کر رخصت ہونا پڑتا ہے۔

اور یہ جو خزاں موسم ہوتا ہے یہ میرا پسندیدہ ہے۔ کیا شعر یاد آ گیا

وُہ شوقِ نمو ہے کہ خزاں میں بھی یہ آنکھیں
کچھ ڈھونڈتی رہتی ہیں جو کِھلنے کی طرح ہو

آپ نے کبھی خزاں دیکھی ہے؟ کبھی خشک پتوں سے اٹی زمین پر درختوں کے بیچ چلے ہیں جہاں سردیوں کی ہلکی دھوپ چھن چھن کر اتر رہی ہو؟ وادی میں بہتی ہوا کی سائیں سائیں سنی ہے؟ رات کو ٹین کی چھت پر گرتے خشک پتوں کا نوحہ کان پڑا ہے؟ نیلی پڑتی وادیوں میں صبح کی پہلی سنہری کرنیں اترتی دیکھی ہیں؟ ٹھنڈے یخ پانیوں پر چمکتے گرم سورج کا عکس دیکھا ہے؟

دیکھا ہوگا۔ شاید محسوس بھی کیا ہوگا۔ مگر آپ میں سے بہت کم نے ان مناظر کو جھیلا ہوگا۔

اشجار کی بے لباسی کا تماشہ۔۔ تیز خنک ہواؤں کے شب و روز۔ جسموں کے کپکپانے کے دن۔۔ دھوپ میں گھلتی سردی۔۔ پرندوں کا اپنے ہی پروں میں چھپے رہنا۔۔ فضا میں سرایت کرتی انتر ہوت اداسی۔۔ ویران کھیت۔۔ بدلتے جذبات۔۔ ڈھلتے چہرے۔۔ اکڑتے جسم اور ایسے میں کسی خسارے کا یاد آ جانا انسان کو بالکل ہی بجھا دیتا ہے۔ جیسے چراغ ہوا کے زور سے گل ہو تو ایک لمبی لکیر دھوئیں کی دور تک تاریکی میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔

سرسراتی ہوا درختوں کے پتے گراتی، گھماتی، اڑائے پھرتی ہے۔ مقامی بچے ان پتوں کے تعاقب میں دیر تک بھاگتے رہتے ہیں۔ کبھی کوئی بچہ کسی ایک پتے کو پکڑنے کی خواہش میں پہاڑ کے نشیب میں اُتر جاتا ہے۔ کبھی من چاہا پتہ پانیوں میں اتر جاتا اور بہاؤ پر ڈولتا ڈولتا اتنی دور نکل جاتا ہے کہ اسے پکڑنا ممکن نہیں رہتا۔ صنوبر کے پتوں میں خزاں کے موسم میں بھی جان رہتی ہے، وہ ہاتھوں میں ملنے پر چڑ مڑ نہیں ہوتے لیکن اخروٹ کا درخت بہت جلدی پتوں سے خالی ہو جاتا ہے۔ اس کے پتے کو ہاتھ میں لیں تو فوراً برادہ بن جاتا ہے۔ پہاڑوں پر خزاں کا موسم میرے مزاج سے ملتا جلتاہے اس لیئے مجھے خزاں ہر سال بلاتی رہی ہے۔ میرے مزاج اور خزاں کی ہوا میں کافی قدریں مشترک ہیں۔

خزاں کی ہوا ایک طرح سے انتشار کا موسم ہے گویا ذہن میں کوئی لفظ گھوم رہا ہو لیکن ہونٹوں پر نہ آنے پائے۔ گھروں میں داخل ہونے والوں کے لباس پر خشک پتے، کھڈوں اور نالوں کے پانیوں کے کنارے ٹھہرے کیسری براؤن پتے، بچوں کے بستروں کے اندر باہر پتے، سڑکوں پر سسکتے، سرسراتے چھوٹے بڑے خشک پتے۔ کھڑکیوں اور جالیوں میں اٹکے پتے، بجلی کی تاروں پر ٹنگے ہوئے اور گیلے کپڑوں سے لپٹے پتے۔ جا بجا پتوں سے سرسراتی آوازیں رات کے وقت کھُلے برآمدوں میں دبے پاؤں چلتیں مدھم ہواؤں میں ٹین کی چھتوں پر ایسی مخلوق کا سراغ دیتے جو روشنی میں نظر نہیں آتی۔ چنتا کا موسم۔ ہراساں سی کیفیت۔۔

بادلوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا بھی ایک رنگ آتا اور جاتا ہے۔ بہار میں شگوفے اور کلیاں فطرت میں تسلسل پیدا کرتی ہیں، بات سے بات چلتی ہے۔ سردیوں میں بھی برف اور بارش ایک تواتر کا باعث ہوتی ہے۔ برساتیں کھُل کے برسیں یا کِن من کی شکل میں، ہریالی ہر سُو بکھر جاتی ہے لیکن خزاں سب موسموں سے کٹا ہُوا موسم ہے۔ اس میں حزن و ملال، یاس و خوف کی کیفیت غالب رہتی ہے اور انہیں قاتل ہواؤں کے زور میں، افراتفری و کیاس کے مناظر میں، چِنتا و ہراسانی کے موسم میں میری آنکھیں پھر بھی کچھ ایسا ڈھونڈتی رہتیں ہیں جو کھِلنے کی طرح ہو۔

ہر سال اکتوبر کی آمد ہوتے ہی مجھے شمال میں بستے دوستوں نے پیغامات موصول ہونے لگتے ہیں۔ آئے روز کی موسم کی صورتحال ان کی جانب سے موصول ہونے لگتی ہے۔ وہ اس آس میں رہتے ہیں کہ میرا جب چکر لگے گا ان سے ملاقات ہوگی۔ ملاقات ہوگی تو سال بھر کی باتیں ہوں گی۔ پنجاب و کراچی سے فوٹوگرافرز دوست شاگرد سب اس موسم میں وہاں جمع ہوتے ہیں۔ وہ بھی انتظار میں رہتے ہیں کہ صحبت ملے تو کچھ دن سفر میں گپ شپ میں بیت جائیں۔ گذشتہ پندرہ سالوں میں یہ پہلی بار ہوگا کہ اس سال میں وہاں نہیں ہوں گا۔ نارتھ یورپ میں ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کے شہروں میں سفر ہوگا۔ خزاں وہاں بھی اترتی ہے۔ مگر شاید گلگت بلتستان کی مانند دل تک سرایت کرنا نہ جانتی ہو۔

Check Also

Ayaz Melay Par

By Muhammad Aamir Hussaini