Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Kasablanka

Kasablanka

کاسابلانکا

یوں تو فلم کا میڈیم سینما کا پردہ تھا یا آج کے دور میں ہوم سکرین مگر کئی فلمیں آپ کے دماغ پہ نقش ہو جاتی ہیں اور کئیں دل میں۔ فلم بینوں نے ہالی وڈ کی کلاسک فلمز دیکھ رکھی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک فلم "کاسابلانکا" ہے جو سنہ 1942 میں منظر عام پر آئی اور آج تلک ہالی وڈ میں چھائی ہوئی ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ایک ریسٹورنٹ Ricks Cafe کا مالک امریکن ہے جو اپنی سابقہ محبوبہ اور اس کے جرمن نازی شوہر کو فرانس کے زیر تسلط مراکش سے باہر بھگانے کی کوشش کرتا ہے۔ فلم کا پسِ منظر جنگِ عظیم دوئم ہے۔ عالمی جنگ کے دنوں میں محبت اس کی کہانی ہے۔ اور کیا ہی کہانی ہے۔ کئی فلمیں دل پر نقش ہو جاتی ہیں۔

یہ فلم ساری کی ساری Ricks Cafe میں فلمائی گئی اور اسی کلاسک ریسٹورنٹ کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کیفے نازیوں کی کاسابلانکا پر بمباری میں تباہ ہوا۔ بعد ازاں اس کو انہی پرانے خطوط پر نیا بنایا گیا مگر اس خیال کے ساتھ کہ نقشہ، اس کا ماحول و خد و خال بالکل وہی رہیں۔ یہ کاسا بلانکا میں اب مہنگا ترین ریسٹورنٹ ہے جہاں داخل ہونے کے واسطے پانچ چھ دن پہلے پیشگی بکنگ لینا ہوتی ہے اور یوں یہ صرف اپنے سلیکٹڈ گاہکوں کو ہی سروسز دیتا ہے۔

شائمہ نے مجھے یہ سرپرائز دیا۔ اچانک گلیوں میں چلتے بولی " تمہارے لئے ڈنر ایک ایسی جگہ ہے جو میری جانب سے تمہیں گفٹ ہے اور مجھے امید ہے تمہیں میرا گفٹ اچھا لگے گا"۔ میں نے حسبِ معمول مسکراتے ہوئے کہا " اچھا مگر دیکھو، تم پہلے ہی ناشتے جیسا تکلف اٹھا چکی ہو اور ایک بھرپور پرتکلف ناشتہ میں کر چکا ہوں۔ گفٹ مجھے قبول ہے مگر اس شرط پر کہ اس کا بل میں دوں گا۔ گفٹ بس اتنا ہی کافی ہے کہ تم بس مزیدار سے ریسٹورنٹ کا بتا دو"۔

اس نے راہ چلتے اتنا اونچا قہقہہ بلند کیا کہ آس پاس گزرتے لوگ چہرہ اٹھا کر اور گھما کر دیکھنے لگے۔ "اچھا، بل تم ہی دو گے۔ ڈن"۔ میں نے بھی "ڈن" کہہ دیا۔ پھر تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ سمندر کے کنارے چلتے چلتے اس کی آواز دوبارہ ابھری " تم پتا نہیں کیوں اتنے فارمل بنتے ہو یا تمہارا مزاج ایسا ہے کہ تم ایسے ہی فارمل رہنے میں خوش ہوتے ہو۔ بکنگ میں نے بڑی مشکل سے کروائی ہے اور بل ایڈوانس ہو چکا ہے۔ 7 اب تم چوں چاں نہ کرنا بدلے میں مجھے کل کچھ کھلا دینا تو حساب چُکتا اگر اتنا ہی تم کو حساب رکھنے اور چُکانے کا شوق ہے"۔

یہ سن کر میں نے اسے دیکھا کہ شاید مزاق کر رہی ہے مگر اس کا چہرہ سنجیدہ تھا۔ میں نے اس سے بل والی بات پر معذرت کی۔ اور کچھ دیر بعد وہ نارمل ہو کر ویسے ہی قہقہہ لگانے لگی کہ راہ چلتے لوگ اک بار گردن اٹھا کر دیکھتے۔ رات ہوئی اور جب وہ اس کیفے کے سامنے گاڑی روک کر اترنے لگی تو مجھے سمجھ آ گئی۔ میں نے اس کو از رہ مذاق کہا " مانا کہ تم اچھا کماتی ہو مگر کیا اس سے سستا ریسٹورنٹ کوئی نہیں ملا تھا؟"اس نے اترتے ہوئے گاڑی سے ہینڈ بیگ نکالتے کہا " اس سے سستا کاسابلانکا میں ایک اور ہے مگر وہ تمہارے مزاج کا نہیں"۔

دروازے پر کھڑے شوفر نے دروازہ کھولا۔ جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے ایک بیرا ہاتھ باندھے ہمیں ہماری نشستیں دکھانے کو آگے بڑھا اور میرے کانوں سے پیانو کی آواز ٹکرائی کو بالکل ویسی تھی جیسی فلم میں سن رکھی تھی۔

نشست پر بیٹھ کر میں پیانو کی دُھن پہ خیالوں میں کھو گیا۔ شائمہ نے گم صم پا کر ہاتھ کے اشارے سے مجھے متوجہ کرتے کہا "کیا سوچ رہے ہو"۔ میرا دھیان ٹوٹا " یہی کہ کبھی یہاں موسیقی تھی، محبت تھی اور باہر جنگ تھی اور ابھی کاسابلانکا میں صرف جنگ نہیں ہے"۔ اب کے وہ قہقہہ لگانے کی بجائے بس دھیما سا مسکرا دی۔ پیانو بجتا رہا۔

Check Also

Mehboob Se Ghair Mehboob

By Saadia Bashir