Just Chill And Carry On
جسٹ چِل اینڈ کیری آن
بغداد جب ہلاکو خان کے لشکر کے محاصرے میں آیا اور ایلچی بھیجا گیا کہ ہتھیار ڈال دو، اس وقت عباسی خلیفہ المستعصم کے دربار میں دو فرقوں کے علما و فضلا مناظرے میں مصروف تھے۔ ہلاکو خان نے اتنا قہر ڈھایا کیا کہ بغداد کی گلیوں میں خون کھڑا ہو گیا۔ دورانِ محاصرہ ایک شام ایک منگول سپاہی ٹہلتے ہوئے کچھ دور نکل آیا اور اس نے چند بغدادیوں کو دیکھا۔
جنہوں نے منگولوں کی دہشت کے قصے بہت دنوں سے سن رکھے تھے۔ چنانچہ وہ اس منگول سپاہی کو دیکھتے ہی منجمد ہوگئے۔ منگول نے سب کو رسے سے باندھا اور سر جھکانے کا حکم دیا۔ پھر اس نے ایک طرف سے سر قلم کرنے شروع کیے۔ تلوار شاید پرانی تھی چوتھے آدمی کا سر کاٹتے ہوئے کند ہوگئی۔ منگول نے باقی بغدادیوں سے گرجدار آواز میں کہا، خبردار کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے، میں دوسری تلوار لاتا ہوں۔
کچھ دیر بعد منگول سپاہی نئی تلوار لے کر آیا تو وہ بغدادی اسی جگہ ساکت بیٹھے تھے۔ محاصرے کے تیرہویں روز منگول افواج دارالحکومت میں داخل ہوئیں۔ دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری " بیت الحکمت" کو آگ لگائی گئی اور مسخ شدہ کتابیں دریائے دجلہ میں اس کثرت سے بہائیں گئیں کہ دریا کا پانی سیاہ ہو گیا۔ پھر دہشت زدہ انسانوں کی فصل کٹنی شروع ہوئی۔
عباسی بادشاہ مستعصم باللہ، آ ہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور مستعصم باللہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے۔ پھر مستعصم سے کہا" جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے، اُسے کھاؤ۔ مستعصم باللہ بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا " میں سونا کیسے کھاؤں؟
ہلاکو نے فوراً کہا " پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟ مستعصم کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا، تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟ مستعصم باللہ نے تاسف سے جواب دیا۔ اللہ کی یہی مرضی تھی ۔
ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا، پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے، وہ بھی خدا کی مرضی ہو گی۔ پھر ہلاکو خان نے مستعصم باللہ کو اسی کے شاہی لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ تاریخ سے قصے یوں یاد آ جاتے ہیں کہ آج ہلاکو خان کی جگہ ڈیفالٹ ہوتی معیشت نے ہمارا گھیراؤ کر رکھا ہے۔ مگر ریاستی دربار میں تحریک انصاف اور اتحادی آپس میں مناظرے پر مصروف ہیں۔
وزیراعظم بیرون ممالک دوروں میں چندہ مانگنے کی مہم پر ہیں اور خان صاحب اندرون ملک حکومت مانگنے کی مہم پر ہیں۔ رہی سہی کسر ہماری اس انوکھی ذہنی پستی نے پوری کر دی ہے۔ جو بنام مذہب ہم سب کے اندر کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ جونئیر رضوی کو تحریک انصاف کی جانب سے طعنے اور کوسنے دے کر اشتعال دلوانے کی کوشش سوشل میڈیا پر منظم کمپین کی صورت ہو رہی ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس اژدھا کو دودھ ڈالنا بھی جان لیوا ثابت ہو گا اور اسے ڈانگ مارنا بھی خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے برابر ہو گا۔ مگر کیا کریں۔ ہائے ہمارا رومانس کہ جس کی خاطر کچھ بھی کر گزرنا جائز ہے۔ دوسری جانب نیب کیسز نیب قوانین میں ترمیم کے بعد بے جان ہو گئے ہیں۔ اتحادی مشن منظم طریقے سے مکمل ہو گیا ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں صاحبو۔ بقول ہلاکو خان " اب جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے وہ بھی خدا کی مرضی ہو گی" تب تک جسٹ چِل اینڈ کیری آن۔