Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Japan Aur Hum Pakistani

Japan Aur Hum Pakistani

جاپان اور ہم پاکیستانی

الحمدللہ جاپان میں بھی ہم وطنوں کی یعنی پاکستانیوں کی ساکھ ویسی ہی ہے جیسے دیگر اقوامِ عالم میں ہے۔ شہر شہر ہم وطنوں کے بینک فراڈ کے قصے ہیں۔ کمپنی رجسٹرڈ کروا کے اس پر لون لے کر ڈیفالٹ شو کرکے وطن واپسی اور پھر وطن میں اس پیسے سے پراپرٹی خرید کر بقیہ عمر سُکھ چین کی زندگی۔ قانونی کاغذات کے لیے جاپانی عورتوں سے شادی، بچے پیدا کرکے ان کے نام پر بینک فراڈز اور پھر فیملی کو چھوڑ کر غائب۔ الغرض کیسے کیسے قصے نہیں سنے اور کن کن عینی شاہدین کی زبانی نہیں سنے۔ جاپان کا نظام آج بھی اعتبار پر چلتا ہے۔ وہ یقین کرنے والی قوم ہے اور ہم وطن اسی اعتبار کو اپنے ذاتی مفاد میں ڈھالنے کو بیتاب رہتے ہیں۔

ایک طبقہ ہمارا وہ ہے جو وائٹ کالر ہے۔ پڑھا لکھا، ہنرمند، سند یافتہ۔ وہ جس کے بارے ہم کڑھتے رہتے ہیں کہ پاکستان سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔ ہاں، ہو رہا ہے اور یہ بات لکھنے سے پہلے میں یہ کہتا چلوں کہ سب ایک جیسے نہیں ہوا کرتے مگر میں کیا کروں جب دنیا میں گھومتے مجھے اسی وائٹ کالر طبقے کے وائٹ کالر جرائم سننے کو ملیں۔ مقامی قانون سے لوپ ہولز تلاش کرکے ان کا استحصال کیا جاتا ہو۔ جلد سے جلد پیسہ کمانے اور سیٹل ہونے کو ہر وہ حربہ برتا جائے جو مہذب اقوام میں اخلاقاً و قانوناً جرم ہو۔

ایک طبقہ ہمارا محنت کش ہے جسے عرف عام میں لیبر کلاس کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ طبقہ ہنرمند بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ البتہ اس طبقے کو ہر حال میں ملک سے باہر جانا ہوتا ہے تاکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگی سنوار پائے۔ ملک کے اندر کمانے کے مواقع نہیں۔ بیروزگار بھی ہے اور ہمارے لوگوں کے پاس عالمی معیار کی سکلز بھی نہیں ہیں۔ یہاں ہر شخص پیچ کس اُٹھا کر الیکٹریشن بن جاتا ہے۔ دو چار ماہ کسی استاد کے پاس لگا کر مکینک بن جاتا ہے۔ باربر بن جاتا ہے۔ ورک پرمٹ لینے کو گھر، زمین بیچ دیتا ہے اور کسی طرح جائز یا ناجائز ملک سے باہر نکل کر سیٹل ہونے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ چونکہ اس معیار کی سکلز پلے ہوتی ہیں نہ ہی زبان سے آشنائی اس واسطے شارٹ کٹس کی تلاش لگ جاتی ہے اور اس شارٹ کٹ نے من حیث القوم ہمارا امیج برباد کر رکھا ہے۔

پتہ نہیں ہمارے اندر یہ جنیاتی کوڈنگ میں فالٹ کہاں سے آیا مگر آ گیا ہے۔ دھوکہ دہی یا فراڈ ہمارا قومی نشان بن گیا ہے۔ انڈیا پاکستان کے لوگوں کی جنیاتی کوڈنگ ایک سی ہے۔ یہ بھارتی بھی کرتے ہوں گے مگر مجھے پاکستانیوں سے واسطہ ہے۔ وہی ملتے ہیں اور مجھ سے بھی پاکستان کے بارے ہی غیر ملکی پوچھتے ہیں۔ میرا کنسرن میرا ملک ہے۔

جاپانی مرد و خواتین آج بھی انتہا درجے کے سادہ مزاج ہیں۔ وہ ہنس کے ملتے ہیں۔ آپ پر اعتبار کرتے ہیں۔ جو آپ کہتے ہیں اس کو سچ مانتے ہیں۔ جاپانی خواتین انتہا درجے کی سادہ مزاج اور خالص ایشین کلچر لے کر چل رہی ہیں۔ شہروں میں انگریزی زبان بولنے والے کافی مل جاتے ہیں۔ ہر جگہ جاپانی زبان کے ساتھ انگریزی بھی لکھی ملتی ہے۔ مجموعی طور پر جاپانی introvert ہیں۔ خود سے کلام کم کرتے ہیں ہاں اگر بات چل پڑے تو پھر کھُلتے جاتے ہیں اور بولتے جاتے ہیں۔ پاکستانی جان کر تھوڑی ہچکچاہٹ ان میں در آئی ہے مگر پھر بھی وہ اس کا اظہار نہیں کرتے۔ ایک جاپانی لڑکی نے مجھے ایک جملہ کہا جو پتہ نہیں تعریف تھی یا طنز۔ اس نے سمپل یہی کہا کہ یو آر آ گڈ پاکستانی۔

جاپانی مرد خاص کر بزرگ بہت خوش اخلاق ہیں مگر ان کو انگریزی سے آشنائی نہیں۔ آپ ان کی باڈی لینگوئج دیکھ کر محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور اچھا ہی کہنا چاہتا ہے۔ نوجوان لڑکے جن کو انگریزی کی تھوڑی شُد بُدھ ہے وہ پاکستان کو ایک کنزرویٹیو سٹیٹ (تنگ نظر ریاست) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان دشمن ہمسایہ ملک ہیں۔

ہم وطنوں کے جرائم کی داستانیں سنتا رہا ہوں۔ آپ کو روس کے سفر میں ملنے والی تاتانیا کی کہانی اگر یاد ہو تو وہ بھی ایک پاکستانی کی اولاد تھی جو ان کو چھوڑ کر غائب ہوگیا تھا۔ اس کی اور اس کی ماں کی مجھ میں دلچسپی صرف پاکستان کی وجہ سے تھی، اسی سبب انہوں نے مجھے اپنے ہاں ٹھہرایا تھا۔ وہ ماں بیٹی یہ جاننا چاہتے تھے کہ پاکستانی کیسے ہوتے ہیں اور کیا ان کو جو پاکستانی مرد ملا ویسے ہی ہوتے ہیں یا ان کی قسمت میں وہی تھا۔ سچ پوچھیں تو تاتانیا اور اس کی ماں کی داستان سُن کر میری آنکھ نم ہوگئی تھی۔ ایک لڑکی اپنے باپ کے ہم وطن کو جاننا چاہتی تھی۔ وہ مجھ میں اپنے باپ کی شبیہہ دیکھتی ہو اور اس کی ماں اپنے ماضی سے گم گشتہ سوالوں کا جواب تلاش رہی تھی۔

پاکستان کا جو امیج دنیا میں بنا ہے اس کو بدلنا ممکن نہیں رہا۔ ہاں، دُکھ ہوتا ہے۔ جلتا کڑھتا ہوں۔ پھر سُن کر چل دیتا ہوں۔ ازالہ میرے بس میں تو نہیں۔ جہاں حکمران تا ریڑھی بان سب کا ایک ہی منشور ہو کہ کیسے سامنے والے کو داؤ لگا کر گرانا، اس کا سب کچھ چھین لینا اور خود اس کے اوپر کھڑے ہو کر وکٹری کا نشان بنانا ہے وہاں کونسی قوم اور کیا قومی تشخص۔ کسی سیانے نے خوب کہا ہے "یہاں نیک وہی ہے جس کو موقع نہیں ملا"۔

اس کے سوا ائیرپورٹس پر سبز پاسپورٹ کی عزت دیکھ کر دل سواہ ہو جاتا ہے مگر خیر، یہ مضمون لمبا اور بیکار ہے۔ اب جو ہے سو ہے۔ ایوب کا "خوشحال پاکستان"۔ ضیاء کا "اسلامی پاکستان"۔ مشرف کا "روشن خیال پاکستان"۔ باجوہ کا "سب سے پہلے پاکستان" اور اب فی الحال تازہ بیانیہ تو ہارڈ سٹیٹ بنانے کا چل رہا ہے۔ دیکھئیے یہ کیا رنگ لائے۔

جناح صاحب نے درست ہی تو فرمایا تھا" پاکستان ایک تجربہ گاہ ہے"۔ تب سے اب تک کوئی کباڑی جناح کے خوابوں کو نیا پاکستان، کوئی چھابڑی والا انقلابی پاکستان، کوئی کنگلا فلاحی پاکستان اور کوئی دو نمبریا روشن پاکستان کہہ کر بیچ رہا ہے اور پیٹ پال رہا ہے۔ ویسے تو پاکستان کے معاشی و قانونی حالات سمیت پاکستانیوں کا تشخص بھی ایک ڈیڑھ دہائی میں معمول پر آ سکتے ہیں اگر صرف ایک اجتماعی عہد کر لیا جائے کہ اس ملک کو ٹام اینڈ جیری سیریز کے تحت نہیں آئین کے تابع چلانا ہے اور قومی نصاب کی تشکیل نو کرکے اگلی نسلوں کی اخلاقی تربیت و ذہن سازی پر توجہ مرکوز کی جائے۔ مگر حالات اگر خدانخواستہ معمول پر آ گئے تو روزِ حشر اقبال کو کیا منہ دکھائیں گے۔

پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

اگر سیاسی افراتفری اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیز سے فرصت مل جائے تو اپنی اگلی نسلوں کو سنوارنے پر بھی تھوڑی توجہ دے لیں۔ پیچھے کا کیا دھرا تو ہم سُن بھگت رہے ہیں۔ اگلی نسل ملک چھوڑنے کی بجائے ملک پر تھوڑا بہت فخر کرنے کے قابل ہو۔ میں مانتا ہوں کہ پرفیکٹ ریاست کہیں نہیں پائی جاتی۔ یوٹیوپیا میں ہی وجود رکھتی ہے۔ مگر چاہتا ہوں کہ میں نہیں تو میرا بیٹا جب بڑا ہو کر دنیا دیکھے تو اسے اپنے اور اپنے باپ کے ملک پر تھوڑا سا تو فخر ہو۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan