Itna Be Simt Na Chal, Laut Ke Gahr Jana Hai
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے

جاپانی انتہا درجے کے ملنسار لوگ ہیں۔ ایک سٹور میں داخل ہوا۔ کھانے کے واسطے ایک سینڈوچ دیکھا۔ چیز اینڈ پوٹیٹو سینڈوچ تھا۔ بل ادا کرنے کاؤنٹر پر گیا۔ وہاں ایک بزرگ بابا جی کھڑے تھے۔ میں نے تسلی کرنا چاہی۔ پوچھا "کیا اس سینڈوچ میں حلال چیز استعمال ہوئی ہے؟"۔ وہ یہ سُن کر حیران ہوئے پھر یکدم جھک گئے اور بولے
合計請求額は210です
میں نے یہ سُن کر عرض کی کہ وہ ٹھیک ہے۔ مگر مجھے کچھ شک ہو رہا تھا۔ پھر سے پریشان ہو گئے۔ پھر سے جھک گئے اور کہنے لگے
カードでの支払いはできません。現金でお支払いください
ان کے اخلاق اور ملنساری کو دیکھتے ہوئے میں بھی سمجھ گیا اور سینڈوچ شیلف پر واپس رکھ کر نکلنے لگا۔ وہ پھر کھڑے کھڑے بولے
新鮮です
اس بار وہ نہیں جھکے، البتہ میں جھک گیا اور ان کو جاپانی میں بولا
اریگاتو گوزےماسو (آپ کا بہت شکریہ)۔
سٹور سے باہر نکل کر فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔ ایک جگہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ٹھیلے پر ساؤتھ انڈین کپل کھڑا تھا۔ ساٹھ سال کے چچا تھے اور ان کے ہمراہ آنٹی تھیں۔ دونوں کے ہاتھوں میں ایک سٹک تھی جس پر گلاب جامن سے مشابہہ شیرینی میں ڈوبی گولیاں سی پرو رکھیں تھیں۔ چچا مُنڈی ہلا کر آنٹی کو کہہ رہے تھے
اٹس نائس ناں
آنٹی نے جواباً کہا
ویری نائس، ویری نائس۔۔
میری نظر ٹھیلے والی پر پڑی۔ وہ ایک جاپانی دوشیزہ تھی۔ بالکل ویسی جس کی بابت ایک پرانا گانا تھا
پردیسی کا دل نہ توڑو یہ ہے بڑی نادانی
او گڑیا جاپانی، او گڑیا جاپانی۔۔
میں نے فوراً اس دوشیزہ سے ایک عدد سٹک لے لی جس پر چار میٹھی گولیاں پروئیں ہوئیں تھیں۔ وہ ایک سویٹ تھی۔ گولیاں اندر سے کرنچی اور اوپر سے شیرے میں ڈبوئی ہوئیں۔ ساؤتھ انڈین انکل نے میری جانب دیکھا۔ مُنڈی ہلاتے بولے
آر یو فرام انڈیا ناں؟
میں نے ایک میٹھی گولی منہ میں دبائی۔ بولا " آئی ایم فرام پاکستان"۔
چچا اور چچی دونوں یہ سُن کر بہت خوش ہوئے۔ باتیں کرنے لگ گئے۔ وہ بھی ٹورسٹ تھے۔ دونوں بہت خوش مزاج لگ رہے تھے۔ بتانے لگے کہ بال بچے گھر والے ہو گئے۔ میں نوکری سے رئیٹائر ہوگیا۔ پہلی بار انڈیا سے باہر آئے ہیں اور سیدھا جاپان آئے ہیں۔ مجھ سے بھی میرے متعلق پوچھتے رہے۔ چونکہ خوش مزاج کپل تھا میں اس واسطے ان سے بات کرنے لگا۔ اپنے بارے بھی بتایا۔ وہ دنوں انگریزی زبان بولتے تھے۔
کھڑے کھڑے بات چیت کرتے اچانک چچا نے پوچھا "عمران خان کا کیسا ہے۔ اچھا بندہ ہے؟"۔ میں نے یہ سن کر چچا کو پوری تسلی کرائی کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ وہ بالکل ہشاش بشاش اورصحتمند ہیں بلکہ جابرانہ فیصلے سُن کر بھی مُسکرا دیتے ہیں۔ پھر وہ دونوں چل دیے۔
ان کے جاتے ہی میں نے ٹھیلے پر کھڑی جاپانی دوشیزہ سے ایک اور سٹک طلب کی۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ میں نے کہا کہ کیا کمال شے ہے۔ بہت ٹیسٹی ہے۔ وہ اس قدر خوش ہوئی کہ جھک جھک کر شکریہ ادا کرنے لگی۔ پھر میں نے پوچھا کہ اس ٹھیلے سے کتنا کما لیتی ہو؟ میں فوٹوگرافی اور رائٹنگ کا بہت بڑا پلئیر ہوں۔ پاکستان میں اپنا گھر ہے، دولت ہے، شہرت ہے، عزت ہے۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ مگر وہ نہ سمجھ پائی۔ بس ہنس ہنس کر شکریہ ہی ادا کرتی رہی۔ مجبوراً میں اسے بل ادا کرکے ہنستا ہوا چھوڑ کر چل دیا۔ ہلکی بارش پھوار کی صورت برسنے لگی۔
چند قدم بڑھا ہی تھا کہ عین دو منٹ بعد بیگم کی واٹس ایپ ویڈیو کال آنے لگی۔ پھوار اب تیز ہو کر ہلکی بارش میں بدل رہی تھی۔ میں نے چھتری کھول لی۔ کال اُٹھا کر اسے جاپان کی رونق دکھانے لگ گیا۔ پھر اچانک خیال آیا۔ واپس مڑا۔ اسی ٹھیلے پر جا رکا۔ بیگم کو کہا "یہ لڑکی بہت زبردست شے بیچ رہی ہے"۔ اس نے دوشیزہ کو دیکھا، اس کی اسمائل کو دیکھا، اس کی پراڈکٹ کو دیکھا۔ جاپانی بھی ہنس ہنس کر کونیچیوا (ویلکم، ہیلو) کہہ رہی تھی۔ بیگم نے سارا ٹھیلہ دیکھ کر ایک ہی گولڈن جملہ بولا "وہ شعر ہے ناں
دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اور اس ململی شعری دھمکی کے بعد کہنے لگی "وہ جو لسٹ (کچھ کاسمیٹکس) آپ کو بھیجی تھی وہ پراڈکٹس یاد سے لیتے آئیے گا۔ باقی آپ میٹھا کھائیں اور کھائیں اور کھائیں"۔
کال بند ہوئی۔ میں چل دیا۔ جاپانی نے اشارۃً پوچھا کہ کیا میں ایک سٹک اور نہیں کھانا چاہوں گا؟ اس کو لگا ہوگا کہ یہ لوٹ کر آیا ہے تو کھانے واسطے آیا ہوگا۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں بس، اپنا ہوگیا۔ آپ جاری رکھو۔ جاپان میں ابھی ابھی بہت خرچہ نکل آیا ہے۔