Inam Rana Ke Ghar Mehfil
انعام رانا کے گھر محفل
گذشتہ شب تین بجے تک لاہور میں انعام رانا کے گھر محفل رہی۔ دراصل انعام بھائی نے اپنے ہئیر ٹرانسپلانٹ کی خوشی میں دعوت دے رکھی تھی۔ بعد از طعام موسیقی کا بندوبست تھا۔ محفل دوستوں پر مشتمل رہی۔ میں نے رانے کو کہا کہ لاہور کے ستر فیصد دانشوران تو یہیں موجود ہیں اس لیے سیاست پر بات نہ چھیڑنا۔ انعام نے کہا کہ آہو اگر کوئی چھیڑے تو تم نے خرم مشتاق کو تیار رکھنا ہے وہ سب کا مکھو ٹھپ دے گا۔
خرم مشتاق روائیتی سیاستدان نہیں بلکہ وہ انسان بھی نہیں ٹرانسمیٹر ہے۔ نون لیگ کی نان سٹاپ ترجمانی کر لیتا ہے اور کسی کی نہیں سنتا۔ میں نے خرم کو سٹینڈ بائی موڈ پر سیٹ کر دیا۔ خرم اگر سٹینڈ بائی موڈ پر لگ جائے تو اس کی ٹانگیں ہلتی رہتی ہیں۔ وہ اس گھڑی کے انتظار میں رہتا ہے جس گھڑی بات شروع ہو اور اسے اشارہ ملے۔ اس کی ٹانگیں ہلتی رہیں۔
محفل کشتِ زعفران تھی۔ میرے اساتذہ بھی موجود تھے اور یار بھی۔ مگر اساتذہ کی موجودگی میں محفل بالغانہ رنگ پکڑنے سے اجتناب کرتی رہی۔ پروفیسر ہمایوں احسان صاحب، سہیل گوئندی صاحب، حیدر جاوید سید صاحب، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب، طیب محمود صاحب، حنیف گُل صاحب، رانا سعید صاحب، رانا اظہر عرف موسیو، شاہد عثمان، گُل نوخیز اختر سمیت کئی دوست تھے۔ کھانے کے بعد موسیقی کا پروگرام شروع ہوا۔ میرے ساتھ گُل نوخیز اختر بیٹھا ہوا تھا۔ اب گُل نوخیز کی شرارتوں اور شوخی کو کون روک سکتا ہے۔ گلوکار غزل چھیڑے بیٹھا تھا۔ سازندے طبلہ اور پیانو بجانے میں لگے تھے۔ فراز کی غزل تھی
قربتوں میں جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
گل نوخیز نے میرے کان میں کہا " یار، اے طبلے والا طبلہ زیادہ اُچا وجا ریا جس دی وجہ توں فاروق (گلوکار) دی آواز دب رہی اے۔ تینوں لفظ "جدائی" ہی سمجھ آ ریا کیا؟ مینوں تے کج ہور سمجھ آ ریا اے"۔ یہ سُن کر میرا ہاسا نکل گیا۔ پھر گلوکار کو بولے "یہ ذرا آپ طبلے کے نوٹس کم کر دیں، ہمیں لفظ جدائی کچھ اور سنائی دے رہا ہے"۔ ساری محفل ہنس پڑی۔
فاروق صاحب نے گا گا کر سماں باندھ دیا۔ خاص کر جب انہوں نے گایا "آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے" اس میں اس قدر تاثیر تھی کہ انعام کی آنکھیں ہی بھیگ گئیں۔ پھر میرے کان میں بولا "تیرے منہ توں لگ ریا تینوں وی پشلی یاد آ رہی اے!"
رات ایک بجے محفل موسیقی کا اختتام ہوا۔ سازندے ساز سمیٹ چکے تو میں نے خرم مشتاق کو اشارہ کر دیا۔ بس پھر صاحبو سیاسی گفتگو چھڑ گئی۔ ڈیڑھ گھنٹہ دانشوران کے درمیان موجودہ ملکی صورتحال پر وہ دھواں دار گفتگو ہوئی کہ جب وقت رخصت رات دو بجے گروپ فوٹو کی باری آئی تو سارے چہرے دھواں مار چکے تھے بس خرم مشتاق کا چہرہ ہی واحد تھا جو ہشاش بشاش اور چمک رہا تھا۔
میں نے ایک بار پھر رانے کو ہئیر ٹرانسپلانٹ کی مبارک دی اور گھر کی جانب چل دیا۔ دھند شدید تھی۔ دھند میں راہ ڈھونڈتے ہولے ہولے گھر پہنچا۔ بیگم صاحبہ نے دروازہ کھولا اور کھولتے ہی بولیں "میں انعام بھائی کی وال پر لائیو دیکھ رہی تھی، آپ غزلیں سنتے ایسے لگ رہے تھے جیسے پرانے درد یاد آ رہے ہوں پھر کہتے ہیں تم ہی میری واحد محبت ہو۔ جھوٹے"۔ اسے یقین دلاتے صبح کے پانچ بج گئے۔ وہ مکمل مطمئن تو نہ ہو سکی مگر مسلسل بات کرتے تھک گئی اور سو گئی۔