Ibrahimi Muahide Aur New World Order
ابراہیمی معاہدے اور نیو ورلڈ آرڈر

عالمی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ امریکا پاپولرازم کا شکار ہے جس نے نتیجتہً دنیا کو ٹرمپ کا تحفہ دیا ہے۔ ٹرمپ کاروباری آدمی ہے۔ سعودی کراؤن پرنس، شامی عبوری حکومت کے صدر نے بالمشافہ ٹرمپ سے ملاقات کی اور اردوان نے ویڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کی۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا ہے سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا میری عزت افزائی ہوگی۔ میری خواہش ہے اور امید ہے کہ سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔
جواباً کراؤن پرنس نے امریکا کو چھ سو بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا تحفہ دے دیا ہے۔ امریکا نے بھی شام پر عائد پابندیاں ہٹانے کا کہہ دیا ہے۔ سب ہیپی ہیپی چل رہا ہے۔ لیکن یہ معاہدہ ابراہیمی کیا ہے؟
"ابراہیمی معاہدہ" اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ معاہدے سال 2020 میں امریکا کی ثالثی میں طے پائے گئے تھے۔ ان کا مقصد اسرائیل کو ابراہیمی بھائی قرار دیتے اسے بطور ریاست تسلیم کرانا ہے۔ ابراہیمی معاہدے کو سال 2020 میں طے کرتے وقت اس کے اہم فریق اسرائیل، یو اے ای، بحرین، سوڈان اور مراکش تھے۔
اس میں مرکزی فریق کے طور پر اسرائیل تھا جس کی ضرورت تھی کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے۔ یو اے ای پہلا عرب ملک تھا جس نے ستمبر 2020 میں اس معاہدے پر دستخط کیے۔ متحدہ عرب امارات کے فوراً بعد بحرین اس میں شامل ہوا۔ جب کہ جمہوریہ سوڈان اکتوبر 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر رضامند ہوا تھا۔ پانچویں فریق کے طور پر مراکش نے دسمبر 2020 میں اس معاہدے پر دستخط کرکے اس میں شراکت اختیار کی تھی۔
ابراہیمی معاہدے کے فریق ممالک میں سے کسی بھی ملک نے فلسطین کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم پر بات چیت نہیں کی تھی۔ کیوں کہ یہ معاہدے بنیادی طور پر فلسطین سے الگ ہو کر طے پائے تھے۔ اہل غزہ اس معاہدے کے فریق نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران بھی اس معاہدے کا فریق نہیں۔ لیکن کل ہی ٹرمپ نے خطاب میں کہا ہے کہ ایران حزب اللہ جیسی پراکسیز بند کرے ہم اس کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔
میرا گمان ہے اور ایرانی وزارت خارجہ کئی مواقعوں پر کہہ چکی ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں، لہذا محسوس ہوتا ہے کہ ایران اس معاہدے کی جانب پیش رفت کرے گا اور شاید اس طرح دو ریاستی فارمولہ نکل آئے گا۔ اگر فلسطین کو الگ ریاست تسلیم کر لیا جاتا ہے تو ابراہیمی معاہدے کامیاب ہو سکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کی بھی یہی خواہش ہے۔ ایران سعودیہ سفارتی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ممالک دو ریاستی حل کے لیے ٹرمپ سے معاہدہ کر سکتے ہیں۔
اب آپ پوچھیں گے کہ اگر دو ریاستی حل نکل آتا ہے اور سب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیتے ہیں تو پاکستان کیا کرے گا؟ پاکستان وہی کرے گا جو سعودیہ کرے گا اور سعودیہ وہی کرے گا جس سے اس کی مسلم دنیا میں عزت بحال رہے۔ مجھے امید ہے معاملات دو ریاستی مستقل حل کی طرف بڑھیں گے۔
دنیا ٹرمپ کا مزاج سمجھ رہی ہے۔ اسے پیسہ چاہئیے۔ پیسہ پھینک اور کام کرا۔ اگر اسرائیل نے ٹرمپ کو پیسہ دکھایا ہے تو کراؤن پرنس اور قطریوں نے بھی پھینک دیا ہے۔ تو یہ ہے نیو ورلڈ آرڈر اور پاپولر ٹرمپ۔۔

