Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Hyderabad Sindh Mein Beeti Aik Sham

Hyderabad Sindh Mein Beeti Aik Sham

حیدرآباد سندھ میں بیتی اک شام

ملاح کا کشتی سے اور کشتی کا دریاؤں، جھیلوں اور سمندروں سے چولی دامن کا ناطہ ہے۔ پرانے لوگ بھی کیا دھنی لوگ تھے۔ دریاؤں کو یوں تقسیم کیا کرتے

راوی راسقاں

سندھ صادقاں

چناب عاشقاں۔

گاڑی دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ میں سڑک سے کہیں نیچے بہتے سندھو دریا کے سبز پانیوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ سفر میں سانس لیتے لوگوں کی زندگی میں سُکھ کس چیز کا نام ہے۔ ایک سفر تو وہ بھی ہے جو آنکھ اوجھل ہے جو ہمہ دم جاری رہتا ہے۔ تنفس کا عمل بھی تو ایک سفر ہے۔ کئی لوگ بس سانس ہی لئے جاتے ہیں یا قہقہوں سے پھیپھڑے بھر لیتے ہیں مگر ایسے لوگوں کا سُکھ کیا ہے جن کے جسم میں ہر سانس کے ساتھ ایک سوچ، خیال، فکر بھی حلول کرتی ہے؟ تنہا روی اگر انسان کا مقدر ہے تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔

جگلوٹ کے مقام پر شاہرہ ریشم نے کروٹ لی اور گاڑی دریائے سندھ کی ہمراہی میں سکردو کی جانب مڑ گئی۔ گاڑی چلاتے مجھے حیدرآباد سندھ میں بیتی اک شام یاد آئی۔ سورج آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ سائے پھیلنے لگے تھے۔ حیدرآباد میں دریائے سندھ کنارے چلتے ملاح نے کشتی کا لنگر ڈالا تو میں نے پوچھا "اس دریا کو کیا کہتے ہیں؟" بولا "سندھو دریا"۔ پوچھنے پر مانجھی نے بتایا کہ دریا مچھلی دیتا ہے، روزی دیتا ہے، یہ ہماری ماں جیسا ہے۔

وہ جو حیدرآباد میں سکون سے ٹھہر ٹھہر کر بہہ رہا تھا جیسے عمر ڈھلنے پر عورت پرسکون اور ٹھہری ٹھہری لگتی ہے یہ بارہ ہزار فٹ اوپر یہاں سکردو میں مجھے پہلی بار دیکھنے پر نوخیز دوشیزہ جیسا لگا تھا، چپ چاپ، نیلگوں اور روپہلا، سردیوں میں سبز رنگ جھلکاتا ہوا اور گرمیوں میں سلیٹی جیسے پرانی چاندی ہو۔ میرے خیال کی سواری حیدرآباد سے نکلی اور سکردو جا پہنچی۔ دریا کے ساتھ رکتے چلتے سفر ہوتا رہا۔

خزاں وادیوں پر اتر چکی ہے۔ سرسراتی ہوا درختوں کے پتے گراتی، گھماتی، اڑائے پھرتی اور مقامی بچے ان پتوں کے تعاقب میں دیر تک بھاگتے رہتے۔ شجر سے ٹوٹ کر ہوا میں اڑتے کسی ایک پتے کو پکڑنے کی خواہش میں پہاڑ کے نشیب میں اتر جاتے۔ کبھی کبھی من چاہا پتہ پانیوں میں اتر جاتا اور بہاؤ پر ڈولتا ڈولتا اتنی دور نکل جاتا کہ اسے پکڑنا ممکن نہ رہتا۔ عورتیں کمر سے بندھی لکڑی کی ٹوکری میں زمین سے خشک تنکے چن کر جمع کرتیں تاکہ رات کے کھانے کے لئے آگ جلائی جا سکے۔

دریاؤں سے جڑے لوگ پہاڑوں سے لے کر میدانوں تک اور میدانوں سے سمندر کے آس پاس بسی آبادیوں تک سب کشادہ دل ہیں۔ یہ اس دریا کا اثر ہے۔ خزاں رسیدہ وادی میں سفر کرتے حیدرآباد کی دریا کنارے بیتی وہ شام پھر دھیان میں آنے لگی۔ ملاح اپنا جال سمیٹتے بولا "آپ اندھیرا پھیلنے سے پہلے اپنی منزل پر پہچ جائیں۔ شام کے بعد یہ علاقہ اچھا نہیں ہے، سندھو دریا تو کل بھی یہیں ہوگا، جب سے میں پیدا ہوا یہ یہیں رہتا ہے بس سال میں ایک بار مہمان بن کر گھروں میں چلا آتا ہے تو صاحب ہم اس کی مہمان نوازی میں سارا گھر دے دیتے ہیں، دریا بھی اپنا بیاج وصول کرکے چھوڑتا ہے "۔

پانی کا سفر انسان پر اوس ڈالنے لگتا ہے۔ کشتی والے نے کشتی پر جیپ لوڈ کی تو سارا بوجھ دل پر پڑ گیا۔ قراقرم کے دہشت گرد سنگلاخ پہاڑوں کے تنگ سے درے میں بنی عطا آباد جھیل کا محل وقوع، لمبائی اور گہرائی جان کر ویسے ہی خوف آتا ہے۔ ایک عام سی کشتی میں تیس منٹ کا سفر پہلے ہی ڈرا رہا تھا کہ کشتی پر جیپ بھی لوڈ ہوگئی۔ لائف جیکٹ جو پہننے کو ملی وہ بس دل کی تسلی کے لیے تھی ورنہ جس معیار کی کشتی تھی اسی معیار کی جیکٹ تھی جو شاید تنکے کو بھی ڈوبنے سے نہ بچاتی ہو۔

کشتی چلی تو دل سے کئی گمان گزر گئے۔ مجھے یاد پڑا کہ بیس سال پہلے میرے والد ہمیں لے کر جہلم کسی عزیز کے گھر گئے۔ وه رشتہ دار ہمیں دریائے جہلم کی سیر کروانے لے گئے۔ اس زمانے میں جہلم میں پانی بہتا تھا اور کشتیاں چلتی تھیں۔ کنارے پر کافی رونق رہتی۔ کشتی پر بیٹھنے لگے تو میری والدہ نے مجھے نہ بیٹھنے دیا۔ میں نے بیٹھنے کی ضد کی تو امی بولیں کہ جب تو بڑا ہوگا اور تیرا بھی اکلوتا بیٹا ہوگا تو میں دیکھوں گی کہ اس کو ایسی شکستہ کشتی پر کیسے بٹھاتا ہے۔ میں کنارے پر امی کے پاس روتا رہا اور باقی سب کشتی کی سیر کرتے رہے۔

تیس منٹ کا سفر سوچتے سوچتے گزر گیا۔ کشتی کنارے لگی تو ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے جھیل کا پانی آنکھوں سے بہنے لگا۔ پسو کونز کے بیک ڈراپ میں ملاح کا چہره دھندلا چکا تھا۔ حسینی کے گاؤں میں چلتے چلتے اسکول جاتے نیلی آنکھوں والے بچوں نے ہاتھ ہلا کر اشاره کیا تو جھیل، کشتی اور یادیں پیچھے ره گئیں۔ پہاڑوں پر سنہری دھوپ اتر چکی تھی۔ موسم بدل چکا تھا۔ پانی کا سفر ختم ہو چکا تھا۔

برس بیتے، اک ایسا ہی منظر میرے سامنے تھا۔ یہ عطاآباد جھیل تھی۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ اس کے کنارے کھڑا تھا۔ ملاح چلتا چلتا قریب آیا اور اس نے کشتی کی سیر بابت پوچھا۔ میرا اکلوتا بیٹا فوری بولا "انکل آپ کے پاس سپیڈ بوٹ ہے وہ جو بائیک کی طرح ریس دے کر چلتی ہے؟" ملاح نے انکار میں سر ہلاتے اور انگلی سے قریب کھڑی اک کشتی کی جانب اشارہ کرتے کہا "نہیں بیٹا میری کشتی وہ والی ہے"۔ یہ ویسی ہی کشتی تھی جیسی عمومی طور پر ہمارے دریاؤں میں چلا کرتی ہیں۔ بیٹے نے اس میں بیٹھنے کی ضد کر دی۔ میں نے کشتی کو دیکھا۔ شکستہ حالت تھی۔

"تمہارے پاس لائف جیکٹس ہیں؟" میں نے ملاح سے پوچھا۔

"ہاں ہیں مگر وہ کام کی نہیں۔ آپ خود دیکھ لو"۔ ملاح نے صاف جواب دے دیا۔ جیکٹس سچ میں ناکارہ تھیں۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹا اس جھیل کو میں کئی بار تب ایسی ہی کشتیوں میں پار کر چکا ہوں جب شاہراہ قراقرم لینڈ سلائڈ کے سبب ختم ہوگئی تھی اور دریا کا بہاؤ رکنے سے یہ جھیل وجود میں آئی تھی۔ ان کشتیوں کی حالت اچھی نہیں۔ جھیل گہری ہے اور بیچ میں جا کر کشتی ڈولنے لگتی ہے لہٰذا یہ سیف نہیں۔

اس نے میری بات سنی۔ بولا "او پاپا یار۔ کچھ نہیں ہوتا ساری دنیا ان میں سیر کر رہی ہے۔ وہ دیکھیں تین چار کشتیاں جھیل میں گھوم رہی ہیں۔ آپ کنارے پر کھڑے ڈرتے ہیں۔ آپ کو واٹر فوبیا ہے۔ آپ نے کئی بار مجھے خود بتایا ہے کہ آپ کو پانی سے ڈر لگتا ہے"۔ میں کنارے پر کھڑا انہیں کشتی کی سیر کرتے دیکھتا رہا اور نجانے دل کیوں ہر لمحہ دہلتا رہا۔ "جب تو بڑا ہوگا اور تیرا بھی اکلوتا بیٹا ہوگا تو میں دیکھوں گی کہ اس کو ایسی شکستہ کشتی پر کیسے بٹھاتا ہے"۔

چناب کنارے میں نے کئی شب و روز بسر کئیے ہیں۔ اس دریا کی کہانی مصطفیٰ زیدی نے ایک شعر میں کمال مہارت سے بیاں کر دی ہے۔

کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی

مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا۔

وارث ملاح کے دُکھ بھی گہرے تھے، سورج ڈوبے آدھ گھنٹا ہو چکا تھا۔ دریائے چناب سامنے تھا اور پیاس سے حلق میں کانٹے چُبھنے لگے تھے میں ہونٹوں کے کناروں پر زبان پھیرتے ہوئے وارث ملاح کی باتیں سُن رہا تھا۔ پانی ساتھ لانا بھول گیا تھا کہ میرے پروگرام میں اتنا لمبا ایک جگہ پر بیٹھنا نہیں لکھا تھا۔ وارث ملاح ادھیڑ عمر کا شخص تھا اس کی داڑھی سفید ہو چکی تھی لیکن سر کے بال کافی حد تک کالے تھے۔ نظر کافی کمزور تھی چہرے کی جھُریاں نمایاں تھیں۔ سر کی پگ کھول کر اس نے زمین پر بچھائی اور ہم دونوں ریت پر بیٹھ گئے۔

اب سے کچھ دیر پہلے چناب پر سورج ڈوب رہا تھا۔ بادل رنگے گئے تھے۔ دریا میں کشتیوں والے آہستہ آہستہ لنگر ڈالنے لگے۔ میں نے کیمرہ پیک کیا اور سگریٹ پینے کے لیئے رک گیا۔ وارث ملاح لنگر ڈال کے میری طرف آیا، بڑی گرمجوشی سے اس نے میرا حال احوال پوچھا پھر ایک سگریٹ مانگا اور پینے لگ گیا۔ میں نے بابا جی کے روزگار یعنی کشتی رانی کے متعلق بات کرنی شروع کر دی۔ بات جو چلنا شروع ہوئی تو وارث ملاح بولتا ہی گیا اس کے پاس دل کی باتیں سنانے کو کافی کچھ تھا اور شاید کئی زمانوں سے وہ بولا بھی نہیں تھا۔ کھڑے کھڑے تھک گئے تو اس نے پگ کھولی ریت پر بچھائی اور وہیں بیٹھ گئے۔

بابا جی نے بتایا کہ انہوں نے جھنگ میں بیس سال چناب میں کشتی چلائی۔ کشتی بناتے بھی خود تھے۔ جھنگ میں شیعہ سنی فسادات کی آگ پھیلی تو شرپسندوں نے ان کا گھر جلا دیا جس میں وارث ملاح کی بیٹی اور بیٹا جل کے مر گئے۔ بیوی پہلے ہی مر چکی تھی، بابا جی نے باقی تین بیٹیوں کے ساتھ جھنگ کو چھوڑا اور سیالکوٹ آ گئے۔ اب وہ چناب میں ہی کشتی چلاتا ہے اور دن میں چار پانچ سو کما کر اپنی بیٹیوں کو کھلاتا ہے۔

روزمرہ زندگی کے دکھ سکھ، بیٹیوں کی پریشانی، روزگار کے نامساعد حالات اور دریائے چناب پر بات کرتے گھنٹا بیت گیا۔ اس گھنٹے میں بابا جی آنکھیں کئی بار نم ہوئیں اور کئی بار ہنسیں۔ میں سگریٹ پیتا رہا اور سوچتا رہا کہ دُکھ ہی انسان کا سانجھا رشتہ ہیں یہ ناں ہوں تو کون کسی کی سنے بھی۔ وارث ملاح جیسے کئی کروڑ لوگ اس معاشرے میں جہنم کاٹ رہے ہیں، ایسے لوگوں کا آخرت میں خدا بھی کیا حساب لے گا۔

آدھی رات کو جب سارے دن کے کاموں سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹتا ہوں تو بیتے لمحے، سفری یادیں، ہنستے روتے لوگ، ملاح، دریا، جھیلیں اور کھنڈر نما پرانے گھر یاد آنے لگتے ہیں۔ انسان فطرت کو اپنے اندر جذب کرتے کرتے کبھی زندگی کی اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے کہ فطرت اسے اپنے اندر جذب کرنے لگتی ہے اور وه لمحہ بہ لمحہ، یاد بہ یاد، فنا ہوتا جاتا ہے۔ ایک نطفے سے پیدا ہو کر خاک میں مل کر نائیٹروجن بننے تک کا سارا سفر، تحلیل ہونے کا مرحلہ ہی تو ہے۔ خلیہ بہ خلیہ۔ فطرت کو اپنے اندر سمونے کی چاه میں مگن لوگوں کو اصل میں فطرت اپنے اندر سمو لیتی ہے۔

ان قصوں کو برس ہا برس بیت چکے۔ دریا بہتے رہتے ہیں۔ ان کے کنارے بیٹھے انسان ڈوب جاتے ہیں۔ جیسے چراغ بجھ جائے تو باقی رہ جاتا ہے چراغ کا دھواں۔

آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھتیں، دشت و صحرا بھی اور گل و گلزار بھی۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلا تو لو دیتے ہوئے چراغوں کا اجالا بھی دیکھا اور بجھتے ہوئے چراغوں کا دھواں بھی۔ اپنی زندگی بیک وقت ذاتی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی۔ تصویریں بنتی بھی ہیں بگڑتی بھی ہیں۔ کبھی حد نگاہ تک کانٹے ہی کانٹے بچھے ہوئے، سراب ہی سراب، تشنگی ہی تشنگی کبھی پیروں کے نیچے بھیگی گھاس کا دل پذیر لمس، کسی پیڑ کی مہربان چھاؤں، آواز دیتا ہوا کوئی رنگ، سانس لیتی ہوئی کوئی خوشبو۔ کبھی راحتیں کبھی کلفتیں۔ اس سارے منظر نامے میں اپنا تو وہی ہے جو دو پلکوں کے بیچ بسیرا کر لے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz