Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya
ہائے کیا دور تھا جو بیت گیا
بھائی سیدھی بات ہے۔ پچیس جولائی 2018 سے نو اپریل 2022 تک قوم آزاد تھی۔ جیسے ہی مرشد کو نکالا قوم غلام ہوگئی۔ مرشد کو واپس لے آئیں تو قوم پھر آزاد ہو جائے گی اور تو کوئی حل نہیں۔ آرمی چیف ایک قدم بڑھ کر مرشد کا دائیاں گال چوم لیں مرشد فوری ان کا بائیاں گال چوم لے گا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔ آپسی رنجشیں ختم کریں۔ پرانا رومانس بحال کریں۔ بس اسٹیبلشمنٹ کی انا آڑے آ رہی ہے ورنہ تو کوئی مسئلہ نہیں لگتا۔
غلط فہمیاں تو سگے بھائیوں میں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ غلط فہمیوں کو رفع کریں۔ ایک دوسرے کو آگے بڑھ کر گلے لگا لیں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ مرشد کھُلے دل سے معاف کر دیں گے اور یوں مقتدرہ کا سٹیٹس بحال ہو تو پھر سیونتھ جنریشن وار کا دور چلے۔ مرشد تو بارہا آوازیں دے چکے کہ مذاکرات کر لو صرف مقتدرہ کی ضد ہے کہ آڑے آ رہی ہے۔ جب سے مقتدرہ نے مرشد سے منہ موڑا ہے اس دن سے وہ رسوا ہو چکی ہے اور ہم سب غلام ہو چکے ہیں۔ حقیقی آزادی چھِن چکی ہے۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ ہم پھر سے آزاد قوم بن جائیں۔ آزادی کا سورج مرشد کے وزیراعظم بنتے ہی طلوع ہو جائے گا۔
پچھلے دو سال میں اسٹیبلشمنٹ جابر بن گئی ہے۔ اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ اچھی بھلی سپورٹیو تھی۔ ملکی مفاد میں سارے فیصلے لیتی تھی۔ اچانک انہوں نے عوام سے ناطہ توڑ لیا اور ظالم بن گئے۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا دو سال قبل تلک آپ نے کبھی سنا تھا کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ ظالم ہے؟ کیا کبھی سنا تھا کہ یہ وطن کے محافظ نہیں قوم کے مجرم ہیں؟ بتائیے کبھی سنا تھا کہ جرنیل وطن فروش ہوتے ہیں؟ امریکہ کے غلام ہیں؟ کبھی نہیں۔ کبھی سنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت گراتی ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کرپشن کرتی ہے؟ مسٹر ایکس اور مسٹر وائے کا نام سنا تھا کبھی؟ بتائیے ناں؟ مجھے یقین ہے کبھی یہ سب نہیں سنا تھا۔
چلیں یہ ہی بتا دیں کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ چالیس سال قبل آئی تھی کیا کبھی اس کا تذکرہ سنا تھا؟ اس کے متعلق جانتے تھے؟ کیا یہ سنا تھا کہ شیخ مجیب مظلوم تھا فوج ظالم تھی؟ چلیں یہ ہی بتا دیں کہ کبھی یہ سننے کو ملا کہ آئی ایم ایف پروگرام دراصل ملک کو برباد کرتا ہے؟ کبھی فاطمہ جناح کے بارے سنا تھا کہ ایوب خان نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کے بارے معلومات تھیں؟ کبھی سنا تھا کہ اچکزئی تو دراصل محب وطن اور نڈر آدمی ہے؟ منظور پشتین دراصل حقوق مانگ رہا ہے؟ نہیں ناں۔ یہ سب اچھے بھلے غدار اور کرپٹ تھے۔
مجھے لگتا ہے وہ منحوس گھڑی تھی جس گھڑی مرشد نے گھڑی بیچ ڈالی اس گھڑی سے کسی گھڑی کسی کو بھی چین نصیب نہیں ہوا۔ اسی گھڑی سے مقتدرہ سے دوریاں پیدا ہونے لگیں۔ اس منحوس گھڑی کے بعد قوم غلام ہوگئی اور اب ہمیں آزادی چاہئیے۔
ہائے کیا دور تھا جو بیت گیا
اب جو سوچوں تو آنکھ بھر آوے
مجھے معلوم ہے آپ میں سے کئیں ان باتوں پر ہنسیں گے۔ مزاق سمجھیں گے۔ مگر نہیں۔ میں صرف و صرف یہ چاہتا ہوں کہ سب پہلے جیسا ہو جائے۔ ہم 2018 میں لوٹ جائیں۔ ہماری آزادی واپس مل جائے۔ سبز پاسپورٹ کی عزت بحال ہو۔ ہم کو کسی سے بھیک نہ مانگنی پڑے اور اگر مانگنی پڑ جائے تو ہمارا مرشد بس اتنا کہہ دے کہ مجبوری ہے کیا کریں تو بس ٹھیک ہے۔ اوورسیز ہمیں اتنا پیسہ بھیجیں کہ خزانے کا منہ بھر جائے۔
ہمارے تئیس اداروں میں میجر جنرل بیٹھ جائیں مگر کسی کی افف تک نہ نکلے۔ ہم سب کا فوکس اصل چوروں پر واپس جائے صادق و امین پر نہیں۔ ہمیں وہ ریاست مدینہ واپس چاہئیے جس کی راہداریوں میں حریم شاہ آزادانہ آ جا سکے اور پرائم منسٹر کی کرسی پر بیٹھ کر اپنی تصویر لگا سکے۔ جنرل فیض تو چلیں واپس نہیں آ سکتے مگر کوئی تو ہو جو فیض جیسا ہو۔ بجٹ پاس ہوتے رہیں۔ مخالف اراکین غائب ہوتے رہیں اور ساری قوم خوشی سے نہال ہوتے بولے "دیکھا آخری بال پر سرپرائز دیا ناں"۔
ذرا سی انا کا بُت ہی تو توڑنا ہے۔ مان لو وہ جیت چکا ہے اور ہمیں واپس لوٹا دو وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔ اگر یہ سب نہیں ممکن تو پھر حقیقی آزادی بھی نہیں ممکن۔ کرتے دھرتو! اگر ہمیں گیا وقت نہیں لوٹا سکتے تو پھر ہمیں زندہ بھی نہ چھوڑو۔ روز روز مرنے سے بہتر قوم کا اک بار ہی گلا گھونٹ ڈالو۔