Hawa Mein Na Uren
ہوا میں نہ اڑیں

گاؤں کی انتظامیہ نے مسجد کے مولوی کو کسی بات پر ناراض ہو کر نکال دیا۔ پھر خیال آیا کہ اب جمعہ کون پڑھائے گا۔ وہ ایک داڑھی والے قلفی فروش کو پکڑ لائے کہ سیانا لگتا ہے اسی سے پڑھوا لیتے ہیں۔ قلفی والا منبر پر بیٹھا۔ اس نے خطبہ دیا "لوگو! نماز پڑھو، اچھے اعمال کرو، زکوۃ دو تو جنت میں جاؤ گے۔ وہاں حوریں ملیں گی۔ دودھ ورگیاں، کھوئے والیاں، ملائی والیاں۔۔ "
ہمارے لوگوں کی عام گفتگو میں ایک عنصر خاص الخاص پایا جاتا ہے۔ وہ جس کام سے منسلک ہوتے ہیں یا ان کا جو پیشہ ہوتا ہے وہ ان کی گفتگو میں اُمڈ آتا ہے۔ ذاتی طور پر میرے ساتھ کچھ ایسے وقوعے پیش آ چکے ہیں جن کو یاد کروں تو لبوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور ایسے ہی خیالوں میں گُم مسکراتے ہوئے جب بیگم کی مجھ پر نظر پڑتی ہے تو گرہستی کی فضا دھواں دار ہونے لگتی ہے۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ اس کا مجازی خدا کسی اور کی یاد میں مبتلا ہے۔
ہمارے ایک بہت مہربان دوست ہیں۔ وہ دیسی گھی، پنیر، مکھن اور ایسی ہی دیسی سوغات کا کاروبار کرتے ہیں۔ ایک تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے میرا تعارف ایک اور صاحب سے یوں کروایا "یہ بخاری صاحب ہیں، ٹاپ کے فوٹوگرافر اور رائیٹر، آپ کبھی ان کا کام دیکھیں۔ اففف افففف افففف، ایسی ظالم تصویریں جیسے خالص دیسی گھی سے بنی ہوں" اور یہ بات انہوں نے انتہائی سنجیدہ انداز میں کہی تھی۔
ایک مہربان ملنے آئے۔ وہ بٹ صاحب تھے۔ ملتے ہی گویا ہوئے "سر جی، قسمے تہانوں پڑھ کے سواد آ جاندا اے، چس آ جاندی اے، ایسا اعلیٰ مصالحہ تہاڈا، اوئے ہوئے ہوئے، شاہ جی یقین منو رج ہو جاندا اے"۔
اک بار میں پشاور کور کمانڈر کے ہاں مدعو تھا۔ کرم ایجنسی کا فوج نے دورہ کروایا تھا۔ پاڑہ چنار سے واپسی پر پشاور میں کور کمانڈر صاحب سے ہائی ٹی پر ملاقات تھی۔ اب آپ فوجی افسر کی گفتگو ملاحظہ کیجئیے۔
Very well done۔ Very well done۔ Your work is prominent like a sword of honour & stands like a uniform man on duty. Really a four stars work"
میں نے بھی جواب میں کہہ دیا کہ سر سیلوٹ تو آپ کو ہے جنہوں نے سول کی نگاہ سے دیکھا۔
میرا باربر جس سے میں کٹنگ کروانے جاتا ہوں وہ بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ ایک دن کہنے لگا "سر جی، آپ کا سٹیٹس ایسا ہوتا جیسے ماہر استاد نے تیز قئنچی سے تراشا ہو"۔
عدنان نیازی گھر ملنے آئے۔ مکتب شہد کے مالک ہیں۔ بولے "بخاری صاحب آپ کی شخصیت بھی شہد جیسی میٹھی ہے"۔ میں نے سن کر کہا "شکر ہے آپ کو مکھی یاد نہیں آئی"۔
ایک بار ایک کال موصول ہوئی۔ صاحب نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ چاول کی ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ پھر دوران گفتگو بولے "بخاری صاحب وہ جو آپ کی بجوات سیکٹر کی چاول کے کھیتوں کی تصویریں ہیں ناں وہ کیا ہی کمال ہیں، فصل میں پانی لگا ہوا، اس میں ڈوبتے سورج کا عکس، چاول کی ہری ہری بالیاں"۔۔
گذشتہ روز ہی ایک محفل میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کا اعلیٰ معیار کے امپورٹڈ و لوکل فرنیچر کا کام ہے اور بہترین شورومز کھول رکھے ہیں۔ جذباتی تعلق ان کا انقلابی جماعت سے ہے مگر میری تحریر کے پھر بھی مداح ہیں۔ محفل میں گفتگو کا موضوع سیاست و موجودہ ملکی حالات کی سمت مڑ گیا۔ اچانک وہ بولے "بخاری صاحب کو دیکھیں لیں۔ ان کا معلوم نہیں ہوتا کہ کس پارٹی کو بہتر سمجھتے ہیں، کسی کے ساتھ affiliation نہیں ہے۔ ان کے پاس ہتھوڑی بھی اپنی ہوتی اور کیل بھی اپنے۔ جہاں دل کرتا ہے ٹھوک دیتے ہیں"۔ اس بات پر حاضرین ہنس پڑے۔ فرخ سہیل گوئندی صاحب ان کو بولے "تہاڈے واسطے تے بخاری نے ورما رکھیا ہویا اے"۔
ایسے ان گنت قصے ہیں مگر ان سب میں حاوی اپنی زوجہ ماجدہ کا کلام جو وہ اکثر سناتی رہتی ہیں" زیادہ ہوا میں نہ اڑیں، میری بات آرام سے سنا کریں، آپ کچھ ہوں گے تو باہر ہوں گے"۔
ہمارے لوگ پینڈولیم کی مانند ہیں۔ کسی کی تعریف کرنے پر آئیں تو زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں اور کسی کی تضحیک کرنے پر اُتریں تو سے مٹی میں رول کر ہی دم لیں۔۔