Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Haruki Murakami Aur Japani Culture

Haruki Murakami Aur Japani Culture

ہاروکی موراکامی اور جاپانی کلچر

تین چار سال قبل ایک محفل میں کسی صاحب نے مجھے جاپانی مصنف ہاروکی موراکامی کا ناول "نارویجین وُڈ" کے بارے انتہائی سنسنی خیزی سے دلچسپ انداز میں بتایا کہ بخاری صاحب آپ نے انٹرنیشنل بیسٹ سیلر ناول پڑھا ہے؟ موراکامی جاپان کا منٹو ہے"۔ میں نے اس وقت تک نہیں پڑھا تھا۔ اب کوئی آپ کو یہ کہے کہ فلاں شخص فلاں ملک کا منٹو ہے تو آپ کے ذہن میں دو سوالات اُبھرتے ہیں۔ اول، کہنے والا منٹو کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ کیا اسے وہ ویسا ہی سمجھتا ہے جیسے منٹو کے ناقدین سمجھتے تھے اور اس پر عدالتی مقدمہ دائر کر دیتے ہیں۔ یعنی ایک فحش افسانہ نگار۔ دوم، یا اگلا شخص منٹو کو اس سماج کے حقیقی عکاس اور المیہ نگار کے طور پر دیکھتا ہے۔ وہ صاحب منٹو کو المیہ نگار کے طور پر دیکھتے تھے۔

موراکامی کا ناول پڑھا۔ یہ ناول تنہائی کا شکار ایک شخص کی لو سٹوری ہے۔ جاپانی معاشرے اور اس کے طور اطوار کو مصنف نے جس اسلوب میں پیش کیا اس کے سبب اس کا انٹرنیشنل بیسٹ سیلر بننا اچنبھے کی بات نہیں لگتا۔ کتاب جاپانی لوگوں کی زندگی کے روزمرہ میں شامل ہے۔ آپ میٹرو یا سب وے میں داخل ہوں، آپ کو اپنے اطراف جاپانی لوگ موبائل سکرین پر کچھ پڑھتے یا کتاب کھول کر پڑھتے نظر آئیں گے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ جاپان میں شائع ہونے والی کتاب کا ایڈیشن کم از کم بیس ہزار کتاب پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کتاب نہ پڑھنے کی وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ جن کو کُتب بینی میں دلچسپی ہوتی ہے ان کے حالات کُتب خریدنے جیسی عیاشی کی اجازت نہیں دیتے اور جو آسودہ ہیں ان میں مطالعے کا شوق عموماً نہیں ملتا۔ یہ بات کسی المیے سے کم نہیں کہ لاہور جہاں کبھی کُتب خانے ہوتے تھے یا معمولی کرائے پر کتابیں دینے والی چھوٹی چھوٹی دکانیں و لائبریریز، وہاں ان کی جگہ اب دودھ دہی کی دکانیں کھُل گئیں ہیں۔

ایک جہاں گرد کی حیثیت سے میں جاپان کو موراکامی کی نظر سے دیکھتے ہوئے چلا۔ چار برس قبل میں روس کو بھی حمزہ رسول توف، چیخوف، شولوخوف، گورکی اور بورس پیسترناک کی نظر سے دیکھنے گیا تھا مگر روس نے مجھے تین دن اپنا مہمان بنا لیا تھا۔ میرے پاس داغستان کے صدر مقام چیچنیا کی ائیرٹکٹ تھی اور چیچنیا مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ عرصہ دراز تک روسی ریاست کے لیے مسئلہ کشمیر بنا رہا تھا۔ کسی بھی معاشرے کا آئینہ اس کے ادیب ہوا کرتے ہیں۔ جاپان نے مجھے اپنا مہمان نہیں بنایا بلکہ مجھے مشاہدہ کرنے کی شخصی آزادی دی۔

ایک کولیگ پوچھ رہے تھے کہ جاپان میں ایسی کیا منفرد بات ہے جو اسے باقی دنیا سے الگ بناتی ہو؟ میرا فوری جواب تو یہ تھا کہ جاپان کے ریسٹورانٹس میں بیرے ٹِپ وصول نہیں کرتے۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واقعی عجیب سی بات لگتی ہے کہ وہاں کھانے کے بل کے ساتھ ٹِپ کا تصور نہیں پایا جاتا۔ اگر کوئی ٹورسٹ اپنی بے خیالی یا لاعلمی کے سبب دے بھی دے تو بیرا ٹِپ وصول کرنے سے انکار کر دے گا۔ یورپ کے ویٹرز تو اتنے فری ہو چکے ہیں کہ کھانے کے بل کے ساتھ سروس چارجز کے نام پر ٹِپ بھی خود ہی کاٹ لیتے ہیں۔ اگر آپ بھول چوک سے کچھ رقم کاؤنٹر پر اس خیال سے چھوڑ آئے ہیں کہ ٹِپ رکھ لے تو سو فیصد ممکن ہے کہ آپ کے ریسٹورانٹ سے باہر نکلتے ہی کوئی بھاگا بھاگا آپ کے پیچھے آ جائے اور رقم آپ کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہے کہ آپ یہ بھول کر جا رہے تھے۔

اس جواب کے بعد میں کافی دیر کولیگ کے سوال پر غور کرتا رہا کہ آخر جاپان میں اور کیا ایسا منفرد ہے جو اسے باقی قوموں سے الگ کرتا ہے۔ ذہن میں جو فہرست ترتیب پانے لگی وہ کافی دلچسپ ہے۔ جاپان میں سب سے پہلے کوئی بھی غیر ملکی جو پہلی تبدیلی محسوس کرتا ہے وہ غیر معمولی صفائی ہے۔ بازار، گلیاں و گھر اس قدر صاف شفاف اور کہیں نہ دیکھے۔ شہر، محلے اور سڑکیں تو ایک طرف، تیرہ کروڑ آبادی والے اس ملک کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک آپ کو کہیں بھی میلے کپڑوں والا آدمی نہیں ملے گا۔ لوگوں کا معیار زندگی مثالی ہے۔ جاپانیوں کے جنیاتی کوڈ میں رات سونے سے پہلے نہانا شامل ہے اور صبح دفتر جانے سے پہلے پھر نہانا۔

دوسری چیز جو یہاں غیر معمولی محسوس ہوتی ہے وہ ہے لوگوں کی عاجزی، نرم لہجہ اور شیریں گفتار۔ چوری یہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملنے پر جھکے جاتے ہیں۔ وداع کرتے وہ تب تک جھکے رہتے ہیں جب تک جانے والا ان کی نظر سے اوجھل نہ ہو جائے یا گلی نہ مڑ جائے۔ ایک اور انتہائی انوکھی بات یہ کہ اناونسمنٹ صرف زنانہ آواز میں ہوتی ہے۔ مردانہ آواز میں اناؤنسمنٹ ہو تو سمجھیں پھر خیر نہیں۔ ایمبولینس کے اندر سے کوئی مرد ہنگامی صورت میں اعلان کر سکتا ہے، پولیس کی گاڑی آپ کو روکنے کے لیے مرد کی آواز میں ریکارڈنگ پر بولے گی (چاہے اندر لیڈی کانسٹیبل ہو)، اسی نوعیت کی ایمرجنسی میں مردانہ آواز میں اعلان سننے کو ملتے ہیں وگرنہ اطلاعات پہنچانے کا شعبہ صرف و صرف خواتین کے سپرد ہے۔

بازاروں میں بھاؤ تاؤ کا رواج نہیں ہے۔ جو پرائس لکھی ہوئی ہے وہ حرف آخر ہے۔ اگر آپ بھاؤ تاؤ کرنا چاہیں تو دکاندار کو اس کی سمجھ ہی نہیں کہ یہ آخر کیا چاہ رہا ہے۔ وہ حیران ہو جائے گا۔ کاؤنٹر پر کھڑے جاپانی لوگ مشینی انداز میں کام کرتے ہیں۔ مطلوبہ رقم سے ایک پائی زیادہ یا کم نہیں لیتے ہیں۔ جی ہاں ایک پائی کم بھی نہیں چاہے وہ پچاس پیسے کا سکہ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ چاہے ایک لاکھ ین کی خریداری کریں اس پر پانچ روپے کا ڈسکاؤنٹ بھی نہیں ملے گا۔ جو رقم جس شے کی مینشن ہے وہی ہے اور بس۔ بل ادا کرتے رقم کو کیشئیر کے ہاتھ میں تھمانا بدتمیزی میں شمار ہوتا ہے۔ ہر کاؤنٹر پر ایک تھالی نما برتن ہوتا ہے۔ اسی میں آپ رقم رکھیں گے اور اسی میں کیشئیر آپ کو بقیہ دے گا۔

بھکاری جاپان میں نہیں ہوتے۔ اگر کوئی مانگنا بھی چاہے تو جاپانی اسے ایک پائی نہیں دیں گے۔ ہچ ہائکنگ کا کلچرل ہے نہ جاپان میں کوئی کسی سے لفٹ مانگتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں بوقت ضرورت لفٹ مانگ لینا یا کسی کو مانگتا دیکھ کر لفٹ دے دینا کلچر کا حصہ ہے مگر جاپان میں یہ شجر ممنوعہ کے مساوی ہے۔ شاہراؤں پر نصب ٹریفک سگنلز بھی انوکھے ہیں جو سینسرز سے مزین ہیں۔ ٹریفک کا بہاؤ، گاڑیوں کی تعداد کو دیکھ کر آن آف ہوتے یا سرخ سبز بتی جلاتے ہیں۔ طرزِ تعمیر بھی منفرد ہے۔ زلزلوں کا آنا معمول ہے سو گھروں کو فائبر گلاس و کمرشل عمارات کو سٹیل کے سٹرکچر سے بنایا جاتا ہے۔

باقی دنیا میں جھوٹ بولنا براسمجھا جاتا ہے مگر جاپان میں جھوٹ بولنا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس کی ایک مثال دیے دیتا ہوں۔ ایک تعمیراتی کمپنی کے ٹھیکیدار نے ٹی وی سکرین پر آ کر اپنی مقامی بلدیہ پر یہ الزام لگایا کہ بلدیہ نے کسی ٹھیکے میں خردبرد کی ہے۔ حکومت فوراً ایکٹو ہوئی۔ انکوائری بیٹھی۔ الزام جھوٹا ثابت ہوا۔ ٹھیکیدار نے پھر ٹی وی پر آ کر قوم سے معافی مانگتے ہوئے اعتراف کر لیا کہ اس نے جھوٹا الزام لگایا تھا کیونکہ اس کی کمپنی کو ٹھیکہ نہیں دیا گیا تھا جس کے سبب وہ غصے میں بھی تھا اور مالی حالت بھی پتلی تھی۔

اس کے بعد ٹی وی چینل کے صدر نے اپنے ادارے کی طرف سے غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ نشر کرنے پر استعفیٰ دے دیا۔ جس میزبان نے انٹرویو نشر کیا تھا اس نے باقاعدہ قوم سے معافی مانگی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ کیس عدالت چلا گیا اور جھوٹا الزام لگانے کی پاداش میں ٹھیکیدار کو تین سال کی سزا سنا دی گئی اور سزا سناتے ہی عدالت نے اس فیصلے پر عملدرامد معطل کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجرم کو فوری طور پر جیل نہیں بھیجا جائے گا۔ اسے جرم کا راستہ ترک کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اگر دوبارہ مجرم کوئی بھی جرم کرے گا تو پھر نئے جرم کی سزا کے ساتھ پرانی سزا بھی جمع ہو جائے گی۔

ابنِ انشا نے جاپانیوں کی سادگی کا ذکر کرتے لکھا تھا کہ اگر آپ کسی جاپانی کے سامنے برطانوی شاہی خاندان کے رشتہ دار ہونے کا دعویٰ کریں تو وہ بالکل شک نہیں کرے گا بلکہ یقین کر لے گا۔ بالکل ٹھیک لکھا تھا۔ لیکن اس کی وجہ جاپانیوں کی سادگی نہیں بلکہ معاشرے میں جھوٹ کی عدم موجودگی ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں کہوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ جاپان بہت جاپانی ہے۔ عالمگیریت کے اس دور میں بھی بیرونی دنیا کے اثرات وہاں غالب نہیں آ سکے۔ میں تو اس دیس کو "جہانِ دیگر" کہوں گا۔ یا بقول چچا غالب "لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں"۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan