Gujranwala Ki Pehchan, Khatay Peetay Pehlwan
گوجرانولہ کی پہچان، کھاتے پیتے پہلوان
گوجرانولہ کی ایک پہچان کھاتے پیتے پہلوانی لوگ ہیں۔ کھانوں کے اس قدر شوقین ہیں کہ ان کی ہر بات سے کھانا ہی جھلکتا ہے۔ وہ گاڑی کی تعریف بھی یوں کرتے ہیں "پا جی بڑی مزیدار گڈی اے تہاڈی"۔ میرے سگے ماموں گوجرانوالہ کے رہائشی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدمؑ کا تعلق بھی گوجرانوالہ سے تھا۔ انہوں نے جنت سے نکلنا گوارا کر لیا مگر کھانے پر کمپرومائز نہیں کیا۔ وہاں کے لوگ کبھی یہ نہیں کہتے کہ شادی پر جا رہا ہوں بلکہ یہ کہتے ہیں "ویاہ کھان چلاں"۔
آپ نے اگر شہر نہیں دیکھا تو کوئی بات نہیں مگر یہ تو سن رکھا ہوگا کہ وہاں کے چڑے اور بٹیرے بہت مشہور ہیں۔ چڑے کھاتے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ ایک بار میں نے جی ٹی روڈ پر واقع سیالکوٹی دروازے کے ایک ہوٹل پر بریک لگا دی۔ اس دن میں نے ڈنر میں زندگی میں پہلی بار اسی سوچ کے زیر اثر چڑے کھا لیئے کہ یہی تو گوجرانوالہ کی پہچان ہے۔ لاہور مال روڈ پہنچنے تک رات کے دس بج رہے تھے۔ میرے پیٹ میں چڑے کھانے کے بعد شدید مروڑ اٹھنے لگے۔ پینوراما سینٹر ان دنوں رات 10 بجے بند ہو جایا کرتا تھا۔ صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے پینوراما سینٹر کی ایک لیٹرین میں پناہ ڈھونڈ لی۔
صاحبو، اس رات سارے چڑے چوں چاں کرتے پینوراما سینٹر کی لیٹرین میں قطار اندر قطار اڑ گئے۔ جب کچھ افاقہ ہوا اور میں باتھ روم سے نکلا تو قیامت یہ ٹوٹ پڑی کہ پینوراما سینٹر کے سارے خارجی دروازے لاک ہو چکے تھے۔ میں تن تنہا اندر قید ہو چکا تھا۔ اس رات ایک گھنٹے بعد بلآخر ایک ایسا فرشتہ صفت گارڈ مل ہی گیا جس کے پاس گیٹ کی چابیاں تھیں۔ اس نے گیٹ کھولا اور مجھے غصے سے دیکھتے ہوئے بولا " توں اندر کی کرنا پیا سیں؟ تیری عقل کم نئی کردی؟"۔۔ میں نے نہایت ادب سے اس کے گوش گزار کیا " چچا جان! ایمرجنسی ہوگئی تھی۔ تُسی کدی چڑے کھادے نیں؟"۔ اس نے حیرت میں ڈوبے مدھم سا جواب دیا " نئیں کھادے"۔ میں نے پھر اسے کہا کہ چاچا فیر توں مکمل صورتحال بالکل نئیں سمجھ سکدا۔۔
اس دن کے بعد سے میں نے کبھی چڑے چکھے بھی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ چڑے کھانے والی شے ہی نہیں۔ اگر کھانے والے ہوتے تو اہلیانِ گوجرانوالہ نے انہیں ختم نہ کر دیا ہوتا؟ بیٹروں کی بابت بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ بٹیرے کھانے کی تاریخ ہمیشہ شریک حیات سے پوچھ کر رکھنی چاہیئے۔
گوجرانوالہ کی ایک پہچان بزنس مین حاجی طبقہ ہے۔ زیادہ تر تو کھلے کپڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ربیع الاول کے کسی دن کا واقعہ ہے۔ گوجرانوالہ کینٹ میں میرے ایک عزیز حاجی نے محفل میلاد کا انعقاد کیا اور اس سلسلے میں اس نے بڑے بڑے نعت خواں و مقرر بلا رکھے تھے۔ مجھے یوں جانا پڑا کہ میرا تعلق اس کے ساتھ پرانا اور گہرا ہے۔ کئی جگہوں پر معذرت کرنا ممکن نہیں رہتا۔
محفل عروج پر تھی۔ میں چند احباب سے مل ملا کر حاضری لگوا چکا تو سوچا اب واپس ہوا جائے۔ سگریٹ پینے کو بنگلے کے لان سے نکل کر دروازے پر آیا۔ وہاں دو فینسی نوجوان سگریٹ نوشی میں مصروف تھے۔ سپیکروں سے آواز باہر تک آ رہی تھی۔ میں نے بھی سگریٹ سلگا لیا۔ ایک نوجوان نعت خواں نعت پڑھ رہا تھا۔ ایک فینسی بوائے جس کی زلفیں اس کے شانوں تک پھیلی ہوئی تھیں، سگریٹ کا کش آسمان کی جانب دیکھ کر بھرا اور دھواں چھوڑتے ہوئے سر ہلاتے بولا " wow bro awesome awesome"۔ وہ نعت خواں کو داد دے رہا تھا۔ اس کی داد پر میری ہنسی نکل گئی۔ ایک نوجوان سے گفتگو شروع کی تو انکشاف ہوا کہ وہ حاجی صاحب کا بھتیجا ہے جسے حاجی صاحب نے ڈگری کرنے برطانیہ بھیج دیا تھا۔ وہ دو چار روز قبل ہی واپس آیا ہے۔ دوسرا جوان اس کا دوست تھا جو چچھڑ والی گوجرانولہ کا رہائشی تھا اور اسی کے ہمراہ پڑھنے برطانیہ گیا تھا۔
نعت ختم ہوئی تو ایک صاحب فرط جذبات میں مائک پکڑ کر شیطان مردہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ نجانے ان کو بیٹھے بیٹھے ابلیس مردود پر کیوں غصہ آ گیا تھا۔ دوسرا نوجوان جو ڈھیلی ڈھالی جینز کے نیچے ہوائی چپل پہنے کھڑا تھا بولا " lucifer par shit man، too much too much"۔۔ ان دونوں کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ گوجرانوالہ بدلے نہ بدلے یہ دو اہلیانِ گوجرانوالہ تو بدل چکے ہیں۔
گوجرانوالہ میرا ننھیال ہے۔ میری والدہ مرحومہ کا تعلق اسی شہر سے تھا۔ بچپن اس شہر کی گلیوں میں گھومتے گزرا۔ کھیالی سے لیکر فتومنڈ اور شیخوپورہ موڑ سے لیکر شاہین آباد تک مجھے گوجرانوالہ سے محبت ہے۔
چلیں اب آپ سے کیا پردہ۔ لڑکپن میں مجھے گوجرانوالہ کی ایک لڑکی سے محبت ہوگئی تھی۔ دراصل میں ہر ویک اینڈ پر سیالکوٹ سے ویگن پکڑ کر ننھیال چلا جاتا اور چھت پر جا کر پتنگ بازی کیا کرتا۔ وہ میرے ننھیال کے ہمسائے تھے۔ سرِ شام وہ بھی چھت پر ٹہلنے آ جاتی۔ اول اول آنکھوں کے پیچ لڑے پھر ایک دن میں نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس دور میں عاشقوں کے خط خون سے لکھے جاتے تھے تاکہ وہ عشق کے صداقت کی سند رہیں۔ یوں بھی لڑکیاں ایسے خط کو دیکھ کر فوراً جذباتی ہو جایا کرتی تھیں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب تو سیدھا کسی سے اظہار محبت کریں۔ مثبت جواب آ گیا تو ٹھیک نہیں تو اور سہی۔
گھر سے چند قدموں پر مرغی کے گوشت کی دکان تھی۔ یوں تو میں وہاں سے وافر مقدار میں خون لے آیا جس سے پورا خط لکھا جا سکتا تھا مگر میرے ذہن نے یہ گوارا نہ کیا۔ اس طرح اسے شک ہو سکتا تھا۔ میں نے صرف "آئی لو یو" خون سے لکھا اور ساتھ ایک خونی دل بنا دیا۔ وہ چھت پر آئی۔ میں نے اس کی جانب اُچھال دیا۔ اس رات نیند نہیں آئی۔ کروٹ بدلتے رات گزری۔ اگلی دوپہر سے میں چھت پر جا کر بیٹھ گیا۔ وہ شام کو آئی۔ اس نے آتے ہی مجھے دیکھا اور ہنستے ہوئے جوابی خط میری جانب اچھال دیا۔ میں نے بے قابو ہوتی دھڑکنوں کو یکجا کرتے خط اُٹھایا اور اسے پڑھنے کے لیے دیوار سے ٹیک لگا کر اس کی نظروں سے چھپ کر بیٹھ گیا۔ خط بہت حوصلہ افزاء تھا۔ اسے مجھ سے محبت ہو چکی تھی۔
خطوط کے تبادلوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ میرا دل کرتا تھا کہ روز سیالکوٹ سے گوجرانوالہ چلا جاؤں مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔ پانچ دن بمشکل گزرتے۔ ویک اینڈ پر میں ہفتے کی شام تک گوجرانوالہ آ جاتا۔ دوسرے ہی خط میں اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ اسے KFC کا برگر کھانا ہے۔ ان دنوں KFC نیا نیا آیا تھا اور سیالکوٹ میں کھُل چکا تھا البتہ گوجرانوالہ میں ابھی تک اس کی کوئی فرنچائز نہیں آئی تھی۔ کے ایف سی کی شہرت سارے ملک میں پھیل رہی تھی۔ میرا دل چاہا کہ ابھی سیالکوٹ جاؤں اور اسے برگر لا کر خود کھلاؤں۔
اگلا سارا ہفتہ میں پاکٹ منی جوڑتا رہا۔ ہفتے کی دوپہر کو برگر لیا۔ ویگن پکڑی اور شام کو گوجرانوالہ پہنچ کر چھت پر چڑھ گیا۔ وہ آئی۔ میں نے برگر گھر کے درمیاں کھڑی دیوار پر رکھ دیا۔ اس نے اُٹھایا اور مسکرا کے لوٹ گئی۔ کھا کر واپس آئی اور پہلی بار مجھ سے ڈائریکٹ بات کرتے بولی " اگلے ہفتے ان کا کوئی اور برگر لانا۔ مجھے ان کے سارے برگر پسند ہیں۔ "۔ میرے لیے تو خوشی کی انتہا ہی نہ رہی تھی۔ میں چاہتا تھا وہ بس بات کرتی رہے مگر وہ اتنا کہہ کر لوٹ گئی۔
خطوط کا سلسلہ پیچھے رہ گیا۔ میں اگلے چار ہفتے چار مختلف برگر لے جاتا رہا۔ ایک ماہ بعد میں نے اسے کہا " ہمیں اب کہیں کسی پارک میں ملنا چاہئیے جہاں ہمارے علاوہ کوئی نہ ہو"۔ اس نے سُن کر کہا کہ ایسا ممکن نہیں۔ ابو اسے کالج کے بعد گھر سے نہیں نکلنے دیتے۔ اس نے صاف انکار کر دیا تو میرے اندر محبت کا بوٹا سوکھنے لگا۔ مجھ پر برگروں کا اُدھار چڑھ چکا تھا۔ کیسے تیسے پائی پائی پاکٹ منی سے جوڑ کر خریدتا تھا اور پھر دوستوں سے بھی ادھار لینا پڑتا تھا۔ لیکن میں اس کی مجبوری بھی سمجھ سکتا تھا۔ دل پر بھاری پتھر رکھ لیا۔
اگلے ہفتے میں برگر نہ لے سکا۔ اس نے پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ اب شاید برگر نہ لا سکوں اتنے پیسے نہیں بچے۔ یہ سُن کر وہ منہ بناتے لوٹ گئی اور پھر ہفتے گزر گئے اس نے چھت پر آنا بند کر دیا۔ میں نے کچھ ہفتے ٹھنڈی آہیں بھریں۔ پتنگ بازی میں دل نہیں لگا۔ ہر بار گوجرانوالہ سے نامراد لوٹنا پڑتا۔ وہ نظر نہیں آتی تھی۔ میں نے وقت کے ساتھ دل کو سمجھا لیا۔ پانچ چھ ماہ بیت گئے۔ میں نے ہر ویک اینڈ ننھیال جانا چھوڑ دیا۔ اب دل ہی نہیں مانتا تھا۔ ایک دن ہم سب نانا ابو کے ہاں گئے۔ میں یونہی چھت پر جا نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ چھت پر ٹہل رہی ہے۔
مجھ سے برداشت نہ ہو پایا۔ میں نے اسے آواز دے کر کہا " یہ کیا کیا تم نے؟ میں نے ایسا کیا کہہ دیا تھا؟ میرا کیا قصور تھا؟ تم اتنی سخت دل کیسے ہو سکتی ہو؟" وغیرہ وغیرہ۔ نجانے میں کیا کیا کہہ گیا۔ اندر کا غبار نکل رہا تھا۔ اس نے میری بات کو ٹوکا۔ چہرے کے سارے مسلز کھینچ کر بولی " او جا جا، مرغی کے خون سے خط لکھتا تھا۔ اتنی تیری عمر نہیں جتنے لڑکے مجھے خط دے چکے۔ برگر کھلانے کی اوقات نہیں اور بات کرتا ہے۔ تیرے نال گل کردی میری جُتی، دفع۔ " اور اتنا کہہ کر وہ نیچے چلی گئی۔ میں چھت پر ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میری دونوں آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔ دل منہ کو آ رہا تھا۔ تھوڑا سنبھلا تو میں نے چھت پر چیخ کر گلا پھاڑ کر آواز لگائی " چول دی بچی، شوہدی، لالچی عورت۔ " اور پھر آنسو پھُوٹ بہے۔
شاید میں کچھ زیادہ ہی اونچا بول گیا تھا۔ گڈ مڈ آواز نیچے تک گئی۔ نیچے سے امی کی اونچی صدا آئی " مہدی کس سے لڑ رہے ہو؟ نیچے آؤ ابھی"۔ میں نے خود کو یکجا کیا اور بولا " کچھ نہیں امی پتنگ کٹ گئی تھی۔ "۔ کبھی کبھی ماضی سے یاد آ جائے تو دوسرا خیال یہ آ جاتا ہے کہ اس کی جس سے بھی شادی ہوئی ہوگی وہ کیا کیا سہہ رہا ہوگا۔ شاید وہ مکافات عمل بھگت رہا ہو۔