Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Gatekeeper

Gatekeeper

گیٹ کیپر

اپنی باری آنے کے انتظار میں لائن بنانا قوم نے نہیں سیکھا۔ بورڈنگ پاس لیتے ایک 4 فٹ کی مکمل لڑکی، جس کا کل وزن 30 کلو کے لگ بھگ ہو گا، اس نے لائن توڑی اور مجھے آ کر کہنے لگی "پلیز مجھے جلدی ہے۔ آپ تھوڑا پیچھے ہو جائیں"۔ میں نے اسے دیکھا، بالوں میں پرپل کلر کا سپرے، ٹی شرٹ کے نیچے شارٹس، بے ہنگم میک اپ اور آنکھوں پر گولڈن مسکارا۔

میں نے اسے کہا کہ محترمہ یہ بورڈنگ پاس کی لائن ہے۔ بجلی کے بل کی نہیں کہ جس سے فارغ ہو کر آپ نے دوسرے کام کرنے ہوں۔ جہاز آپ کو لے کر ہی جائے گا۔ آپ لائن میں لگیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جہاز خالی اڑ جائے۔ میں بھی اسی فلائٹ میں ہوں اور یہ سب لوگ جو لائن بنا چکے ہیں، انہوں نے بھی اسی جہاز پر جانا ہے تو دیر کیسی؟ بیزار سا منہ بنا کر ایسے پلٹی جیسے میں نے اس کی گڑیا چھین لی ہو۔

ایک بار راما میڈوز کے شروع میں واقع اکلوتے محکمہ جنگلات کے موٹل میں رکا ہوا تھا۔ یہ چند سال پرانی بات ہے تب راما میڈوز میں دو ہی ہوٹل تھے۔ ایک PTDC دوسرا محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاوس۔ پشاور میڈیکل کالج برائے خواتین کا ایک گروپ راما میڈوز کے میدان میں اترا۔ لگ بھگ ڈیڑھ سو سے دو سو لڑکیاں ہوں گی۔ ان کی مینجمنٹ کیمپ لگانے لگی، مگر ایک بھول یہ ہو گئی کہ واش روم کا مسئلہ حل کرنا بھول گئے۔

واش روم والا کیمپ نہیں تھا۔ پی ٹی ڈی سی میں داخلہ مکمل بند تھا کہ وہاں آرمی آفیسرز ٹھہرے ہوئے تھے۔ راما میڈوز میں سورج ڈھلتے ہی شدید سردی ہو جاتی ہے۔ اب ان کے مینجر ایک ڈاکٹر صاحب میرے پاس آئے اور اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمانے لگے، آپ کی مہربانی تھورا تعاون کر لیں۔ واش روم میرے کمرے سے ملحقہ تھا۔ میں نے صورت حال دیکھ کر اجازت دے دی۔

اب ٹولیوں کی ٹولیاں میرے کمرے کے باہر اترنے لگیں۔ لڑکیاں چار چار پانچ پانچ کے گروپ میں آتیں۔ اور ایک ایک کر کے میرے کمرے میں واش روم کے باہر لائن بنا لیتیں۔ مجھے ہنسی آنے لگتی اور میں کمرے سے نکل کر باہر لان میں جا بیٹھا کہ وہ بھی شرما رہی تھیں۔ راما میں سردی کافی تھی۔ ایک بار تو مجھے خود واش روم جانے کی طلب ہوئی تو میں نے لائن میں لگی لڑکیوں کو کہا کہ پلیز اگلی باری میری ہے۔

اتنی افلاطون لڑکیاں تھیں کہ ایک بولی " سر، ہم کتنی دیر سے لائن میں لگے ہیں، آپ تو کہیں بھی کھلے میں کر سکتے ہیں پلیز ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ" اس کا جواب سن کر میں اتنا ہی کہہ سکا " کہیں بھی؟ بلاآخر کمرے سے نکل کر چار پانچ سو فٹ چل کر سنسان جگہ پر ایک چیڑ کے درخت کو ڈھال بنانا پڑا، واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ واش روم کے استعمال پر دو لڑکیوں کے گروپس آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔

زبانی کلامی بحث چلنے لگی۔ ایک گروپ کا خیال تھا کہ وہ پہلے آ کر لائن بنا چکی تھیں۔ دوسرے گروپ کا کہنا تھا کہ وہ ان سے پہلے یہاں موجود تھیں۔ لڑائی سیریس ہو گئی تو میں نے بیچ بچاو کر کے سب کو کمرے سے باہر نکلنے کا کہا۔ ایک لڑکی اپنے گروپ مینجر کو بلا لائی۔ وہی ڈاکٹر صاحب آئے تو کیس پیش ہوا۔ اتنے میں ایک لڑکی میرے پاس آئی اور بولی "آپ خود یہاں دیکھ رہے تھے ناں۔

کہ انہوں نے کیسی بدتمیزی کی اور ہم پہلے سے ہی موجود تھے تو آپ پلیز ڈاکٹر صاحب کو کہیں ناں کہ ہم ٹھیک بات کر رہے ہیں" ایسا بولتے اس کی آنکھیں دو بار تیز تیز مٹکیں اور صورت بہت مسکین سی بن گئی۔ میں اتنا کھٹور دل نہیں ہو سکتا تھا کہ ایسی صورت کا دل توڑ دوں لہذا میں پھر اٹھا اور بولا کہ لائن میری مرضی کے مطابق بنے گی۔ سب نے فیصلے کو قبول کر لیا۔

میں نے اسی لڑکی کو اشارہ کیا کہ آپ سب سے پہلی آئی تھیں پہلی باری آپ کی، وہ لائن میں آگے کھڑی ہو گئی اور باقی سب پیچھے۔ واش روم سے باہر نکل کر اس نے پھر میرا شکریہ ادا کیا تو مجھے ایسا لگا، جیسے آج کی شام میں ان سب کا باس ہوں بس میرے ہاتھ میں اس ڈنڈے کی کمی ہے۔ جس کے ایک سرے پر فنائل میں بھیگی ٹاکی لگی ہوتی ہے۔ وہ بھی بہت سیانیں تھیں۔ باری باری مسکرا کے دیکھتیں اور اپنا کام کر جاتیں۔

ایسا لگنے لگا جیسے میں لیٹرین کا گیٹ کیپر ہوں اور چونکہ ان کو فری سروس دے رہا ہوں تو یہ مسکرا مسکرا کے "گیٹ کیپر" کا شکریہ ادا کر رہی ہیں۔ احساس ہوتے ہی میں نے خود پر لعنت بھیجی اور کیمرا بیگ اٹھا کے فوٹوگرافی کرنے نکل گیا۔ ساری رات ٹولیاں آتی رہیں۔ فجر کے وقت میں نے ہوٹل چھوڑا۔ جیپ سٹارٹ کی اور راما کو خدا حافظ کہہ دیا۔

Check Also

Safar Sarab

By Rehmat Aziz Khan