FM Radio
ایف ایم ریڈیو
ایف ایم ریڈیو ایک parallel universe ہے۔ جہاں گھریلو ناچاقیوں سے لے کر نوکری پر ہونے والے کھینچا تانی اور عشق معشوقی سے لے کر طلاق تک سب ڈسکس ہوتا ہے۔ گاڑی میں ایف ایم ریڈیو 101 سن رہا تھا۔ خاتون میزبان تھی اور انہوں نے خواتین کے حقوق پر بات کرنے کو ایڈوکیٹ شمع بھٹی صاحبہ مدعو کر رکھی تھیں۔ ایڈوکیٹ شمع بھٹی صاحبہ کا تعارف انہی کی زبانی سنا کہ وہ خواتین کے حقوق کی فی سبیل اللہ محافظ ہیں۔
یہ پروگرام میں صرف اس لئے سننے لگا کہ میزبان خاتون نے تعارف میں بتایا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی روشنی میں آج ہم خواتین کے حقوق پر بات کریں گے۔ اول اول تو سب ٹھیک رہا، ایڈوکیٹ شمع بھٹی صاحبہ اپنے تجربات بتاتی رہیں۔ بھٹی صاحبہ مردم بیزار شخصیت تھیں۔ ان کی گفتگو میں مردوں کے بارے تلخی تھی اور کئی مقامات پر انہوں نے مردوں پر جابر و ظالم ہونے کے فتوے بھی جاری کیئے۔
ان کی مردم بیزار گفتگو اس حد تک جذباتی ہوگئی کہ لگنے لگا جیسے دنیا کے سب مرد جانور ہیں اور ساری عورتیں مظلوم پروگرام خواتین کے حقوق کی بحث سے نکل کر "مرد مکاؤ" تحریک میں بدل گیا۔ شمع بھٹی صاحبہ شاید گھر سے لڑ کر آئی تھیں یا کسی مرد نے ان کا شدید استحصال کیا تھا۔ ان کا غصہ دیکھ کر میں گاڑی چلاتے کانپنے لگا۔ مجھے مرد ہونے کی حیثیت سے اپنا آپ انتہائی کمتر لگنے لگا۔
مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرے دانت ڈریکولا کی طرح لمبے ابھر آئے ہیں، آنکھیں خون اترنے سے لال ہوگئی ہیں اور میرے بازو و ہاتھ چوپائے کی طرح ٹانگوں میں بدل گئے ہیں۔ مجھے جھڑجھڑی سی آئی تو میں نے گاڑی کا آئینہ دیکھا۔ خود کو انسان پا کر تسلی ہوئی، خاتون میزبان بھٹی صاحبہ کی گفتگو سے اتنا جذباتی ہوگئیں کہ انہوں نے فرط جذبات میں اپنے شوہر کا کیس پیش کر دیا۔
وہ فرمانے لگیں کہ میرے شوہر مجھ سے اس بنا پر حسد کرتے ہیں کہ میں پڑھی لکھی ہوں اور جاب کرتی ہوں جبکہ وہ مجھ سے کم پڑھے لکھے ہیں۔ اس حسد کی وجہ سے وہ مجھ پر طعنے کستے ہیں اور میں بچوں کی وجہ سے کمپرومائز کر رہی ہوں۔ اب ایڈووکیٹ شمع بھٹی کے ہاتھ لائیو بٹیرا آ گیا۔ یہ کیس انہوں نے مفت لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے خاتون میزبان کو ہر قسم کی قانونی چارہ جوئی کی آفر کر دی۔
اور ان کے شوہر پر سینڈل سمیت چڑھ دوڑیں۔ گفتگو کا مزاج "مردم بیزاری" سے کہیں آگے بڑھ گیا۔ خاتون میزبان اپنی مہمان کے ہر وحشی جملے پر داد دینے لگیں۔ دس منٹ کے جذباتی اتار چڑھاؤ کے بعد میزبان نے لائیو کالز لینے کا اعلان کر دیا۔ اب جو پہلی کال آئی وہ ایک مرد کی تھی۔ مرد نے سلام لیتے ہی کہا کہ میرا فون کاٹیئے گا مت مجھے بولنے دیں۔ میں ان میزبان خاتون کا شوہر بول رہا ہوں۔
آپ کا پروگرام سن رہا تھا۔ ایڈوکیٹ شمع بھٹی صاحبہ آپ نے یکطرفہ بات سن کر مجھ پر بھڑاس نکالی۔ آپ کو شرم آنی چاہیئے۔ اب وہ مرد بولنے لگا تو بیچ میں میزبان خاتون اپنے شوہر کو پڑ گئی۔ مرد اپنے راگ الاپتے ہوئے، اپنی زوجہ کی گھریلو کوتاہیوں کا ذکر کرتا رہا، خاتون میزبان آگے سے فر فر ترکی بہ ترکی جواب دیتی رہی اور ایڈوکیٹ شمع بھٹی صاحبہ نے قانونی نقطوں کی بوچھاڑ کر دی۔
تینوں مل کر پروگرام کو کامیابی سے کھچڑی بنا گئے۔ پروڈیوسر نے پروگرام کٹ کیا اور ایکدم ہی پاک فضائیہ سے متعلقہ ملی نغمہ چل پڑا۔
سورج پہ دستک دینا آسان نہیں، آسان نہیں
اپنا ہاتھ جلا لینا آسان نہیں، آسان نہیں۔
پروگرام کا غیر اعلانیہ اختتام ہو چکا تھا۔ ملی نغمہ سننے کے بعد میں نے ریڈیو اسٹیشن بدل دیا۔ اتنے میں میرے موبائل پر بیگم کی کال آنے لگی۔ میرے پسینے چھوٹ گئے۔ پتا نہیں کیوں میرا دل بیٹھنے لگا۔ مجھے ڈر لگنے لگا، ڈرتے ڈرتے کال اٹھائی۔ بیگم نے حسب معمول گھر واپس آتے کچن کے واسطے کچھ ضروری اشیاء ساتھ لانے کی لسٹ سنائی۔ میں ہوں ہاں کرتا رہا۔
فون بند کرنے لگا تو بیگم بولی " آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ اتنا بجھا بجھا کیوں بول رہے ہیں؟ شوگر سیٹ ہے ناں آپ کی؟ مجھے آپ کی آواز ٹھیک نہیں لگ رہی۔ میں نے ایکدم بھاری آواز میں اونچی کہا " ہاں ہاں سب ٹھیک ہے، گاڑی چلا رہا ہوں، فون لمبا ہوگیا۔ بند کرو اب کہیں چالان ہی نہ ہو جائے" یکدم بیگم بولی " آپ اکیلے ہیں ناں؟ گاڑی میں ساتھ کوئی ہے؟ مجھے لگ رہا ہے کوئی ساتھ ہے۔
مجھے آپ ٹھیک نہیں لگ رہے۔ گھر واپس آئیں فوری۔ کون ہے ساتھ؟ اب بیگم کو کیسے بتاتا کہ ایڈووکیٹ شمع بھٹی ساتھ تھی جو میرے اندر کا مرد مار گئی۔ گھر واپس آ کر بیگم کو یقین دلانے میں ایک گھنٹہ لگا کہ سب ٹھیک تھا اور میں اکیلا تھا۔ اس کے بعد موسلا دھار بارش برسی، لاہور جل تھل ہوگیا۔ مجھے امید ہے کہ پروگرام کی میزبان خاتون نے گھر جاتے ہی شوہر کو بھی جل تھل کر دیا ہوگا۔