Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Durmat

Durmat

درمٹ

برسوں پہلے میں سائبر انٹرنیٹ سروسز میں جاب کیا کرتا تھا۔ یہ کسٹمر سپورٹ کی نوکری تھی۔ ڈائل اپ موڈیم کا زمانہ تھا اور DSL انٹرنیٹ نیا نیا آ رہا تھا۔ آفس میں میرا ایک کولیگ ہوتا تھا، اس کا نام نثار تھا۔ نثار بہت ہی کول ٹائپ بندہ تھا۔ اکثر اوقات اس کے منہ سے ایسی بات نکل جاتی کہ جس پر کولیگز اس کا مزاق بنا لیتے۔ دراصل اپنے تئیں وہ کسی کو جگت لگاتا تھا۔

مگر اس سے لگائی نہیں جاتی تھی اور اکثر اوقات اسے جواب میں ایسی اعلیٰ جگت لگ جاتی کہ سارا آفس ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا۔ ہوتا ہے ناں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ جواب دینا چاہتے ہیں، مگر ان سے بن نہیں پاتا مثال کے طور پر نثار نے اک بار اپنے تیں جگت لگاتے ایک کولیگ کو کہا " توں میرا بہنوئی لگنا ایں جو میں تیرا آرڈر مانوں؟ کہنا وہ سالا چاہتا ہو گا مگر رشتہ غلط انتخاب کر بیٹھا۔

بس اسی طرح وہ ایسی ایسی بات کر دیتا تھا، جو الٹا اس کے گلے پڑ جاتی تھیں۔ تھا وہ ٹھنڈے دماغ کا یعنی جوابی بھرپور جگت کھا کر اور اپنا اچھا خاصہ مزاق اڑوا کر بھی کبھی کسی سے تو تکرار پر نہیں اترتا تھا۔ بس چپ کر کے منہ بسور کے بیٹھ جاتا یا اس کی برداشت سے باہر ہو جاتا تو ہمیں کوستے ہوئے آفس سے اٹھ کر باہر نکل جاتا، نثار کو کولیگز "درمٹ" کہتے تھے۔ درمٹ وہ جو سڑک پر بجری کوٹنے والا آلہ ہوتا ہے۔

یہ نام اس کی توند کی سبب پڑا تھا۔ یوں تو وہ چہرہ تا سینہ اور ناف تا پاؤں تک سمارٹ تھا مگر توند اس کی اُبھری ہوتی تھی، جس کے سبب اس کی جسامت عجب ہی لگتی تھی۔ یاروں نے اس کی عجب فزیک کے سبب اس کا نام درمٹ رکھ دیا تھا۔ قصہ یوں ہے کہ ایک نیا لڑکا کمپنی نے ہائر کیا، وہ لڑکا ڈیوٹی پر آیا، دو تین دن میں وہ سب سے گھُل مل گیا مگر چونکہ وہ نیا نیا تھا لہذا وہ سینئیر کولیگز کے مذاق میں حصہ نہیں لیتا تھا۔

بس چپ چاپ سنتا رہتا تھا۔ غالباً اس کی ڈیوٹی جوائن کرنے کے تیسرے یا چوتھے دن کی بات ہو گی۔ اپنی کرسی پر بیٹھا وہ کرسی کو گھماتے اپنی ہی دھن میں مست گنگنانے لگا۔

جوان جانِ من، حسین دلربا

ملے دو دل جواں، نثار ہو گیا

نثار صاحب کو لگا کہ یہ بھی اس کا مزاق بنانے لگ گیا ہے۔ نثار اٹھا اس نے جا کر دے رکھ کر ایک جھانپڑ اسے رسید کیا اور گالیاں دینے لگ گیا۔ اب چونکہ نثار کو کبھی غصے میں کسی نے دیکھا ہی نہیں تھا تو اس دن اس کا وحشی پن اور حالت دیکھ کر ہم سب سکتے میں آ گئے۔ وہ لڑکا تو جیسے ایکدم سُن ہو گیا۔ ہم میں سے کسی کی ہمت نہ پڑی کہ بیچ بچاؤ کروانے کو آگے بڑھے۔ نثار گالیاں بکتا جاتا تھا اور بار بار کہتا جاتا تھا۔

ہے تیرا میرا مزاق کوئی؟ تیری فلاں دی فلاں وچ فلاں۔ بول ہے کوئی مزاق تیرا میرا؟ نثار صاحب بالکل ہی آپے سے باہر ہو گئے تھے۔ غصے میں اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور اس کا پورا جسم کانپنے لگ گیا تھا۔ آنکھیں ابل ابلُ کر باہر آنے لگیں تھیں۔ شاید ان سارے برسوں کا غصہ اس نے نکال دیا تھا۔ اب جب نثار کو تھوڑی ہوش آئی۔ کچھ غصہ قابو ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ آفس میں سب کو سانپ سونگھ چکا ہے۔

اور سارے اس کی جانب پھٹی پھٹی آنکھوں سے ڈرا ڈرا دیکھ رہے ہیں۔ نثار نے سوچا کہ موقع غنیمت جانو اور اب ایک ہی بار سارے کولیگز کی تہہ بٹھا دو۔ اس نے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا مگر تھا تو وہ نثار ہی ناں۔ ہوش میں بھی آ چکا تھا۔ گرج کر گلا پھاڑ کر ہم سب کو مخاطب کرتے بولا، آج توں بعد جے کسی نے میرا مزاق اڑایا تے میں اودا سالا بن کے وخاواں گا۔ ہے گا میں درمٹ، جاؤ جو کرنا کر لو۔

یہ سنتے ہی ہم جو سہمے ہوئے تھے یکدم ہماری ہنسی چھوٹ گئی۔ نثار نے یہ منظر دیکھا تو اسے سمجھ آ گئی کہ اس سے پھر کوئی بھنڈ وج گیا ہے۔ اپنے آپ پر کنٹرول پاتے اس نے آخری جملہ کہا اور آفس سے باہر نکل گیا تسی ہے گی اے سارے مراثی خاندان دے او، کچھ دیر بعد وہ آفس واپس آیا تو میں نے اسے ٹھنڈا کر کے رشتوں کی بابت سمجھایا کہ نثار بہنوئی اور سالے میں یہ فرق ہوتا ہے۔

اس کو یاد کر لو اچھی طرح، اس دن باقی کولیگز کو بھی سمجھایا کہ شریف بندہ ہے آئندہ مزاق کم کر دو ذرا۔ باقیوں کو ویسے بھی سمجھ آ گئی تھی۔ نثار کی شرافت نے ہماری ایک کولیگ لڑکی کو بہت متاثر کیا۔ شاید اسے نثار سے ہمدردی ہو گئی تھی۔ ہوتا ہے ناں جب کسی شریف بندے کو باقی کولیگز جگتیں ہی لگاتے رہیں تو اس سے ہمدردی ہو جاتی ہے اور لڑکیوں کو ذرا بہت جلد اور بہت زیادہ ہمدردی ہو جاتی ہے۔

ہوا یوں کہ کہیں چپکے چپکے سارے آفس سے چھپ چھپا کر ان دونوں میں"جذبہ ہمدردی" پروان چڑھنے لگا۔ سیالکوٹ شہر سے باہر بائیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پرفضا مقام ہے۔ ہیڈ مرالہ۔ دریائے چناب کا کنارا ہے۔ ہیڈ مرالہ سے دو نہریں اپر چناب اور لوئر چناب نکلتیں ہیں۔ یہ مقام سیاحوں کے واسطے اچھا مقام ہے۔ ان دنوں مجھے نیا نیا فوٹوگرافی کا شوق ہوتا تھا۔

میں اپنا یاماہا سٹارٹ کرتا اور چھٹی والے دن ہیڈ مرالہ چلا جاتا۔ اوٹ پٹانگ سی تصویریں لیتا رہتا۔ ایک دن میں کیا دیکھتا ہوں کہ نثار اور وہ لڑکی دونوں نثار کی بائیک پر وہاں پہنچے ہوئے ہیں اور دریا کنارے ریت پر جڑ کے پاس پاس بیٹھے گپیں لگا رہے ہیں۔ اگلے روز میں نے نثار کو اپنے روم میں بلایا۔ اسے ابھی بات کا آغاز ہی کیا تھا کہ میں نے تمہیں اور اس کو دیکھ لیا تھا۔ اس سے قبل کہ بات مکمل کرتا نثار ایکدم گھبرا کے بولا۔

قسم سے آج تک میں نے تو اس کا ہاتھ بھی نہیں پکڑا۔ وہ بس ہم باتیں کر رہے تھے اور کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، ایسا ویسا کچھ نہیں ہے، یہ سن کر مجھے ہنسی تو آئی مگر ضبط کر گیا۔ اسے جو سمجھانا تھا وہ سمجھایا کہ تم دونوں کولیگز ہو۔ اگر کسی کو آفس میں یہ معلوم پڑ گیا تو تمہارا کیا جانا ہے اس لڑکی پر بات آئے گی اور تم جانتے ہو جاب کرنے والی لڑکی کو زمانہ ویسے ہی عجب نظروں سے دیکھتا۔

اور عجیب سوچوں سے سوچتا ہے لہذا اگر دونوں سیریس ہو تو باقاعدہ گھر والوں کو بتاؤ اور پھر منگنی یا جو بہتر لگے کرو اور پھر سب کو خوشی سے بتاؤ۔ اسی میں اس کی بھی عزت ہے۔ ورنہ سکینڈل ہی بنے گا اور اس لڑکی کی جاب جائے گی وہ خود چھوڑ جائے گی اگر ایسی ویسی باتیں ہونا شروع ہو گئیں آفس میں نثار نے بہت کوشش کی مگر بات نہیں بنی، گھر والے نہیں مانے۔

وہ لڑکی اچھی تھی، مگر جب بات ہی نہ آگے بڑھ پائی تو وہ جاب چھوڑ گئی۔ شاید اس کے گھر والوں نے بات معلوم ہونے پر جاب چھڑوا دی۔ نثار کافی ماہ دلبرداشتہ رہا۔ پھر سال بعد اس کی شادی اس کی فیملی میں ہی ہو گئی۔ شادی کے بعد اس کا کاکا پیدا ہوا تو اس نے بہتر نوکری کی تلاش میں دبئی و ابوظہبی کی آئی ٹی کمپنیوں میں سی وی بھیجنا شروع کر دئیے۔

آخر اس کو دبئی میں ایک نوکری مل گئی اور وہ چلا گیا۔ میرا اس سے ملنا جلنا ختم ہو گیا۔ اس کے جانے کے تین سال بعد میں نے بھی کمپنی سے رخصت لے لی۔ ہم دس سال بعد پھر ملے ہیں۔ وہ میرے ساتھ ترکی کے سفر میں ہے۔ ایک دن نثار کا پیغام ملا کہ ترکی چلتے ہیں کچھ دن گھوم کے آتے ہیں۔ ورک لوڈ سے ہم دونوں اکتائے ہوئے تھے تو ہمارا پلان بن گیا۔ پچھلے چار روز سے ہم ایک ساتھ ہیں اور یقین مانئیے اسے وہ لڑکی نہیں بھولی۔

روزانہ رہ رہ کر اسی کا ذکر چھیڑ دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ شادی کر چکی ہے اور تین بچوں کی ماں ہے۔ کئی لوگ کبھی نہیں بدلتے یہ آج بھی ویسا کا ویسا ہے۔ جگت لگاتے یہ خیال ہی نہیں رکھتا کہ خود کو لگا رہا ہوں یا اگلے کو ابھی کچھ دیر پہلے میں نے اسے کہا " جاؤ دکان سے لیز چپس، اور کچھ سنیکس وغیرہ کے ساتھ کافی لے آؤ"۔

خرچے سے تنگ آ کر مجھے کہنے لگا " توں میرا بہنوئی لگنا ایں؟ توں وی تے پیسے لا" میں نے اسے پھر یاد دلایا کہ ناہنجار بہنوئی مہمان ہوتا ہے، شریف خاندانی لوگ اس کا خرچ نہیں کروایا کرتے۔ وہ پھر سُن کر گاڑی سے اترا اور دکان میں داخل ہو گیا۔

Check Also

Mein Aap Ka Fan Hoon

By Rauf Klasra