Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Do Intehai Energetic Insaan

Do Intehai Energetic Insaan

دو انتہائی انرجیٹک انسان

گزشتہ دس دن دو انتہائی انرجیٹک انسانوں کے بیچ رہا۔ توانائی سے بھرے یہ دونوں انسان کرہء ارض پر تحفۂ خداوندی ہیں۔ ایک تو ہیں میری زوجہ ماجدہ جنہوں نے مجھے کبھی اماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور دوسرا ہے خطیب حسین جو اسپیشل ایجوکیشن محکمے میں اسپیشل بچوں کا ٹیچر ہے اور جس نے دس دنوں میں مجھے معذور بچوں یعنی اسپیشل بچوں کے بارے اتنی معلومات دی ہیں کہ اب میں خود کو اسپیشل بچوں کا کنسلٹنٹ فِیل کرنے لگا ہوں۔

صاحبو، بجلی بھری ہے ان دونوں کے انگ انگ میں۔ ایسی توانائی، ایسی پھُرتی اور زبان کی ایسی روانی و رفتار میں نے کسی اور انسان میں نہیں دیکھی۔ اِدھر خطیب مجھے اسپیشل بچوں کا بتاتا اُدھر بیگم کال کر دیتی کہ اب یوں ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر "سُنیں، مالی آیا ہے وہ کہہ رہا تھا کہ اب گزارہ ممکن نہیں اس ماہ پیسے بڑھاؤں گا"۔ میں اوکے کہہ کر بات ختم کرنا چاہتا مگر ایسے نصیب کہاں۔

"آپ کو تو پرواہ ہی نہیں۔ آپ تو شاہ لگے ہوئے ہیں۔ آپ اس سے بات کریں کہ ابھی چار ماہ قبل تو بڑھائے تھے اب پھر سے کیوں بڑھانے ہیں؟ میں آپ کی بھلائی میں کڑھتی ہوں اور آپ سکون سے اوکے کہہ دیتے ہیں جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اتنے ہی پیسے آ گئے ہیں تو مجھے دے دیں"۔ بمشکل سر بچا کر فون بند کرتا تو خطیب حسین شروع ہو جاتا "سر جی، اسپیشل بچوں کے والدین اس بات کو قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ان کا بچہ اسپیشل ہے۔ وہ مسلسل ڈینائل موڈ میں رہتے ہیں۔ " میں ہوں ہاں کرتا رہتا کہ ٹھیک کہہ رہے ہو۔

پھر بیگم کا میسج آ جاتا "سنیں، دودھ والا آج بھی نہیں آیا۔ اس کی کلاس لیں ذرا۔ اور وہ اب پانی مکس کر کے دے رہا ہے۔ پیسے تو اپنی مرضی کے لیتا ہے تو دودھ تو اچھا دے۔ ابھی اس کو کال کریں ابھی کے ابھی اور کہہ دیں کہ کل سے نہ آئے ہم کوئی اور دیکھ لیں گے۔ آئی سمجھ!" چنانچہ میں دودھ والے کو کال کرتا کہ بھائی شکایت ہے ایسا نہ کرو۔ وہ مجھے اپنی مجبوریوں کے قصے سنا کر پروردگار کی قسم کھاتے کہتا کہ اس سے بہترین دودھ پورے لاہور میں کوئی نہیں دے سکتا۔

کمرے میں آتا تو خطیب حسین ٹوٹا ہوا سلسلہ کلام بحال کرتا "سر جی، اسپیشل کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ جسمانی اسپیشل جن کی اعضاء نہ ہوں یا کام نہ کرتے ہوں، نابینا لوگ، بہرے، گونگے، جو بظاہر تندرست ہوتے ہیں۔ اور سر جی ذہنی اسپیشل یعنی ذہنی معذور۔ " میں سُن کر پھر ہوں ہاں کرتا رہتا۔ پھر کال آ جاتی "سُنیں، یہ بچوں کی وین والا ایک تو لیٹ آ رہا ہے دوسرا پھر کہہ رہا تھا کہ باجی تھوڑے پیسے بڑھا دیں پٹرول دیکھیں کہاں چلا گیا۔

میں نے کہہ دیا کہ پیسے ابھی تو بڑھائے تھے اب نہیں ہو سکتا تو کہنے لگا کہ پھر آپ کوئی اور وین والا دیکھ لیں۔ ایسا بدتمیز انسان ہے۔ میں نے اسے نکال دیا ہے۔ اب آپ فوری کوئی بھروسے والا وین والا دیکھیں۔ ابھی کے ابھی۔ آئی سمجھ!" چنانچہ میں بیگم کو شانت کر کے وین والوں کا معلوم کرنے لگتا۔ دس بارہ کالز گھما کر واپس اسی وین والے کو کہتا کہ بھیا نہ کرو۔ اور پھر وین والے کو منا کر واپس بیگم کو کہتا کہ معاملات سیٹ ہو گئے ہیں۔

مذاکرات طے پا گئے ہیں۔ بیگم مجھے گولڈن فرائی طعنے دیتی جن کو سُن کر میری بغلوں کے بال جھڑ جاتے مگر کیا ہو سکتا ہے۔ کمرے میں آتا تو خطیب حسین تازہ دم ہوتا "سر جی، میں کئی ایسے دوستوں کو جانتا ہوں جن کے بچے اسپیشل ہیں مگر وہ اس بات کو مانتے ہی نہیں کہ اسپیشل ہیں اور جو مانتے ہیں وہ چھُپاتے ہیں اور ڈکلئیر نہیں کرتے کہ ان کا بچہ اسپیشل ہے۔ بھلا اس میں چھپانے والی کیا بات ہے؟"

اُدھر پھر موبائل کھڑکتا۔ "سنیں، آج تو حد ہی ہوگئی ہے۔ ابھی ٹیوشن والی کی کلاس لی ہے۔ وہ عاریش کو کیا پڑھاتی ہے؟ اتنی ٹیوشن لیتی ہے مگر مجھے لگتا ہے وقت پورا کرتی ہے۔ آپ واپس آتے ہی کوئی ٹیوشن والی دیکھیں۔ " میں بیگم کو ٹھنڈا کرتا کہ رکو ذرا، صبر کرو۔ سب کو فائر نہ کرتی جاؤ بیگم۔ میں نے لوٹ کر تمہارے پاس ہی آنا ہے۔ بس کچھ دن جی لینے دو۔ جواب سن کر مجھے مزید سننا پڑ جاتیں اور بسورا سا منہ بنا کر واپس کمرے میں داخل ہوتا۔

خطیب حسین تیار بیٹھا ہوتا "سر جی، میں کہہ رہا تھا کہ لوگ اس بات کو کیوں چھپاتے ہیں کہ ان کے گھر کوئی اسپیشل موجود ہے؟ ہیں شاہ جی؟ آپ انسانوں کی نفسیات پر لکھتے ہیں تو بتائیں ذرا چھپانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟" ابھی میں وجہ سوچ ہی رہا ہوتا کہ موبائل پر ٹُن ہوتی۔ "سنیں، آج فیصلہ ہو کر رہے گا کہ اس گھر میں میری چلے گی یا آپ لوگوں کی منت کر کے ان کی ہی مانیں گے۔ بس مجھے ہاں ناں میں جواب دیں۔ ابھی کے ابھی۔ "

اُدھر خطیب حسین تُلا بیٹھا ہوتا "شاہ جی؟ لوگ آخر کیوں چھپاتے ہیں کہ ان کے گھر کوئی اسپیشل ہے؟" میں نے بلآخر مسکین سی صورت بناتے کہا "خطیب، آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہاری بھابھی بھی اسپیشل ہے۔ " خطیب کی آنکھیں پھٹ پڑیں اور پھر اس کو سمجھ آنے تک کمرے میں دو منٹ کا پِن ڈراپ سائلنس رہا جو میری زندگی کے خوشگوار ترین دو منٹ تھے۔ اس کے بعد خطیب کا فلگ شگاف قہقہہ چھُوٹا۔

Check Also

Dard Dil Ki Qeemat

By Shahzad Malik