Christmas Day
کرسمس ڈے
جس سوسائٹی میں میرا گھر ہے وہاں میرے ہمسائے میں آنٹی نینسی رہتی ہیں۔ میرے گھر کی دیوار ان کے گھر سے ملتی ہے۔ آنٹی نینسی کرسچن سکول میں پرنسپل رہیں، ان کے آنجہانی شوہر لاہور کیتھڈرل میں سروس کیا کرتے تھے۔ میں جب چھ سال قبل آبائی شہر سیالکوٹ سے ہجرت کر کے بال بچوں سمیت لاہور منتقل ہوا تو آنٹی نینسی ملنے آئیں۔ میری بیگم کو انہوں نے اپنی بیٹی یوں بنایا کہ وہ کہنے لگیں میری ایک ہی بیٹی ہے اور وہ امریکہ جا چکی ہے۔ یہ مجھ کو بالکل ویسی لگتی ہے۔
پہلے سال کرسمس کی آمد آمد تھی۔ کرسمس سے دو روز قبل بیگم میرے قریب آ کر بولی "وہ آپ سے پوچھنا تھا کہ آنٹی نینسی کرسمس ٹری لائی ہیں، مجھے کہہ رہی تھیں کہ میں اس کو سجانے میں ان کی مدد کر دوں تو کیا میں کر دوں؟" میں نے سن کر کہا کہ بیگم کیوں نہیں، جاؤ ان کی مدد کرو، ایک تو وہ ویسے ہی تم کو بیٹی مانتی ہیں دوجا کیا یسوع مسیح ہمارے کچھ نہیں لگتے کیا؟ پیدائش کی تاریخ میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر جشن ولادت منانے میں کیا حرج ہے؟
ہر سال ان کے گھر کرسمس ٹری سجتا ہے۔ ہر سال بیگم اور میری بیٹی اسے سجانے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ کرسمس کے دن میرے گھر آنٹی نینسی گھر میں خود بنا کر کیک بھیجتی ہیں۔ وہ کیک میں چٹ کر جاتا ہوں۔ میری بیٹی جو اب چودہ سال کی ہو رہی ہے وہ اک بار سکول میں کسی سے کچھ سن کر آئی اور میرے پاس بیٹھ کر بولی "بابا، میری فرینڈز کہہ رہی تھیں کہ "میری کرسمس" نہیں کہنا چاہیئے، ایسا کہنے سے انسان کرسچن ہو جاتا ہے۔ میں نے تو آنٹی نینسی کو کئی بار میری کرسمس کہا ہوا ہے"۔
یہ سن کر میں نے اسے کہا "بیٹا۔ میری کا مطلب "خوشی" ہوتا ہے۔ میری کرسمس کا مطلب ہے "کرسمس کی خوشیاں مبارک"۔ اور اگر بالفرض میری کرسمس کہنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تو بیٹا اسی اصول کے تحت وہ تمام غیر مسلم جو ہم کو "عید مبارک" کہتے ہیں وہ بھی تو مسلمان ہو جاتے ہوں گے۔ لہٰذا یقین رکھو کہ اس حساب سے ہم ہر سال دو مرتبہ کئی زیادہ لوگ مسلمان کرتے ہیں۔ مجھے تو خود بیرون ممالک میں بستے غیر مسلم دوستوں کے ڈھیروں عید مبارک کے پیغامات ملتے ہیں۔ میرے خیال سے میں سو ڈیڑھ سو لوگوں کو یونہی مسلمان کر چکا ہوں"۔ یہ سن کر اس نے دانت نکالے اور چلتی بنی۔
"سوہنا آیا تے سج گئے نیں گلیاں بازار" اور عیسیٰ آیا تو ساری دنیا سجی ہوئی ہے۔ نہ ہی سوہنا گلیاں بازار سجانے کے واسطے آیا تھا نہ آپ صلے علیٰ علیہ و آل وسلم کا حکم تھا ایسا۔ نہ ہی عیسیٰؑ نے کرسمس ٹری سجانے کے احکامات جاری کیئے تھے۔ یہ ان کے بہت بعد ان کے حواریوں نے اس رسم کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ انسانوں کے اپنے اپنے سماجی رسم و رواج کے مطابق بس خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کا کسی دین سے کوئی تعلق نہیں، اس کا مقامی رسم و رواج سے تعلق ہے۔ اسی طرح انسانوں نے اپنے مزاج و ماحول کے مطابق سوگ یا غم منانے کے طریقے بھی اپنائے ہیں۔ تو عرض یہ تھی کہ کسی دوسرے کے دین، مذہب یا مسلک پر تنقید کرنے سے پہلے سب دیکھ بھال لیا کریں۔
میلاد ابن مریم یسوعؑ کا ہو یا خاتم النبیین، سید المرسلین ابو القاسم محمد ﷺ کا ہو اس دن خوشی منانا ہمارا ایمانی حصہ ہے۔ آپ سب کو میری جانب سے میلاد عیسیٰ کی بہت مبارک۔ جس تنگ ذہن اور مذہبی جنونی معاشرے میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں وقوع پذیر ہوتے دلخراش واقعات اور جہالت سے لبریز انتہا پسندانہ سوچ کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ ایسے میں چچا غالب مرحوم کا شعر اکثر یاد آتا رہتا ہے۔ اس میں بس "میرے" کی جگہ "ہمارے" لکھ کر چچا غالب کہ روح سے معافی مانگتے ہوئے ترمیم کر رہا ہوں۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
ہمارے دکھ کی دوا کرے کوئی