Burai Ko Khud Mein Aur Achai Ko Dusron Mein Talash Karo
برائی کو خود میں اور اچھائی کو دوسروں میں تلاش کرو

میں کافی دن ملک سے باہر رہا۔ گاڑی گیراج میں کھڑی رہی اور دھول مٹی کے سبب کافی گندی ہو چکی تھی۔ گذشتہ روز میں اسے دھلوانے ایک قریبی سروس سٹیشن لے گیا۔ جس بندے کے ذمے دھونے کا کام لگا وہ بہت افسردہ لگ رہا تھا۔ پہلے میں نے سوچا کہ اس سے پوچھوں خیر تو ہے پھر خیال آیا کہ جب جب کسی پریشان حال بندے سے حال پوچھا اس نے مالی پریشانی ہی سنا دی۔ خیر، میں دیکھتا رہا۔
اس سروس سٹیشن پر جو لیبر کا سپروائزر تھا وہ پہچان کر پاس آ گیا۔ وہ ویسے مجھے نہیں جانتا بس اس حوالے سے پہچانتا ہے کہ اس کے پاس گاڑی دھلوانے جانا رہتا ہے۔ حال چال پوچھ کر قریب ہی کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ جو بندہ گاڑی دھو رہا ہے اس کو زبردستی کام پر لگا رکھا ہے کیا؟ اس کا چہرہ کیوں اُترا ہوا ہے؟ جواب ملا "باو جی آج ایسٹر ہے۔ ان کی عید ہے۔ میں نے تو کہا تھا کہ کافی لڑکے چھٹی پر چلے گئے تم بھی ایسٹر منانے چلے جاؤ۔ لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے اس کی ایک چھوٹی بیٹی ہے اور وہ کئی دن سے ہسپتال داخل ہے۔ یہ بیچارا بہت پریشان ہے۔ اس کو روزانہ پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مجھ سے بھی ایڈوانس ادھار اٹھا چکا ہے"۔
اتنا سُن کر میں نے انہیں کہا آپ ماشااللہ مسلمان ہیں؟ جواب آیا الحمدللہ باؤ جی مسلمان ہوں۔ میں نے پوچھا کتنا ادھار اُٹھا چکا ہے؟ جواب ملا اکیس ہزار لے چکا ہے۔ پھر خود ہی بولا "میں نے تو اسے کہا تھا کہ گھر جاؤ۔ اللہ کا بڑا کرم ہے باؤ جی پیسوں کا مسئلہ نہیں ہے مگر یہ خود ہی نہیں گیا"۔ میں نے سپروائزر کو کہا کہ کیا میں اس سے بات کر لوں؟ اس نے آواز دے کر بُلا لیا۔
جیسے ہی وہ آیا میں اسے سگریٹ پینے کے بہانے ویٹنگ روم سے لے کر باہر نکل گیا۔
ہاں استاد، آج تو ایسٹر ہے ناں؟ تم یہاں کام کر رہے ہو۔ چھٹی نہیں لی؟
مجھے یہ تھا کہ وہ خود فر فر سب بولے گا مگر اس نے صرف اتنا ہی کہا "نہیں باؤ جی، کام ہے۔ کافی لڑکے عید منانے چلے گئے ہیں۔ پیچھے کام بھی تو کرنا ہے نا"۔
اچھا۔ سگریٹ پیو گے؟
پیتا ہوں۔ پہلے آپ کی گاڑی نکال لوں پھر فری ہو کے پیتا ہوں۔
میں نے یہ سُن کر اسے نہیں روکا۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ اور ٹائپ کا بندہ ہے۔ میں نے اسے جانے دیا کہ پہلے گاڑی دھو لے پھر جب سکھانے کی باری آئے گی تب بات کروں گا۔ گاڑی دُھل گئی۔ پھر وہ خود گاڑی ڈرائیو کرکے اسے سکھانے کے واسطے سروس سٹیشن کے اندر سے نکال کر دھوپ میں لایا۔ جب سارا کام تمام ہوگیا اور بل دینے کی باری آئی تو میں نے سگریٹ نکال کر اسے دیا۔ اس نے لے لیا اور سلگا لیا۔
ہاں استاد، پھر تم اس لیے عید منانے نہیں گئے کہ لڑکے کام پر نہیں ہیں۔ تم کو کام کرنا ہے؟
ہاں جی۔ کام کرنا ہے۔ کام کریں گے تو نظام چلے گا ناں۔ عید تو ہر سال آتی ہے۔
اچھا۔ پر تمہارا سپروائزر تو بتا رہا تھا کہ تمہاری بیٹی ہسپتال داخل ہے۔ کیا ہوا ہے اسے؟
یہ سُن کر اس نے حیران ہوتے پوچھا کہ یہ بات سپروائزر نے بتائی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ کیوں غلط بتائی ہے؟ اب کے اس نے بولنا شروع کیا۔
باؤ جی ٹھیک کہتا ہے۔ اچھا بندہ ہے۔ میں خود چھٹی پر نہیں گیا۔ میری ایک ہی بیٹی ہے آٹھ سال کی ہے۔ جھولے سے گر گئی ہے۔ اس کا سر پتھر سے ٹکرایا تھا بیہوش ہوگئی۔ ہسپتال لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ دماغ کے اندر خون جم گیا ہے۔ پتہ نہیں کون سے ٹیسٹ کرنے لگے۔ کافی بل بنا دیا۔ اب وہ ہوش میں ہے اور کہہ رہے کہ ایک دو دن بعد گھر بھیج دیں گے۔
اچھا۔ کونسے ہسپتال ہے؟ اور کتنا خرچہ ہوا ہے؟
رائیونڈ سرکاری ہسپتال جو ہے وہاں ہے۔ خرچہ ساٹھ ستر ہزار ہوگیا ہے۔
پھر اس نے اپنا موبائل نکالا اور اپنی بیٹی کی ہسپتال میں پڑے تصویر دکھانے لگا۔ میں نے یہ سب سن کر اسے کہا "سپروائزر سے ادھار لیا ہے اس لیے چھٹی نہیں کی یا کوئی اور وجہ بھی ہے؟ بولا کہ حساب چکانا ہے۔ آج نہیں تو کل بھی چکانا ہے۔ اس کے پاس (سپروائزر) میری بیوی کی چین گروی رکھی ہوئی ہے اور مجھے وہ واپس چاہئیے۔
اچھا۔ اس نے تم کو اکیس ہزار ادھار دیا ہے اور بدلے میں گولڈ چین گروی رکھی ہے؟
جی ہاں۔ میرے پاس ایک وہی شے تھی اور تو کچھ نہیں تھا۔
یہ سب سُن کر میں نے اسے کہا کہ چلو کارپٹ وغیرہ گاڑی میں ڈالو۔ میں ذرا بل ادا کرکے آیا۔ بل ادا کرنے سپروائزر کے پاس گیا۔ اسے کہا کہ جناب اس کی گولڈ چین رکھی ہوئی ہے وہ اسے واپس کر دیں اکیس ہزار میں آپ کو بھیج رہا اپنا جاز کیش یا اکاؤنٹ دیں۔ پہلے تو وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ باؤ جی وہ بس تسلی کے لیے رکھی ہے۔ آپ لیبر کلاس کو نہیں جانتے۔ میرا تو ان سے ہی واسطہ پڑتا ہے۔ یہ ایڈوانس لے کر بھاگ جاتے ہیں ادھر بندہ پھر کیا کرے؟ آپ نے اس کی مدد کرنی ہے تو بیشک کریں مگر ہمارا بھی یہ روز کا کام ہے۔ بار بار اپنا نقصان کوئی نہیں کروا سکتا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
اس کی باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہوں گی۔ میں نے اس لیے لائٹ موڈ میں ہنس کے کہہ دیا کہ جناب، آپ کو معلوم تھا کہ اس کی بچی کا مسئلہ بن گیا ہے اسے علاج کے لیے ضرورت ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے آپ فرما رہے تھے کہ اللہ کا بڑا کرم ہے پیسے کا مسئلہ نہیں۔ پر چلیں آپ بہتر سمجھتے ہوں گے۔ میں آپ کو اکیس ہزار بھیج رہا آپ اسے ابھی میرے سامنے چین لوٹا دیں۔ قصہ مختصر یہ کہ دونوں کو آمنے سامنے کرا دیا۔ چین اسے واپس مل گئی اور شرمندگی کے مارے سپروائزر نے اسے دو دن کی چھٹی بھی دے دی۔ میں پھر واپس گھر چلا آیا۔
یہ مملکت خداداد ہے۔ یہاں کوئی ایک وقت کے کھانے کا بل بیس ہزار دے دیتا ہے اور کوئی اپنی کُل متاع بیس اکیس ہزار کے لیے گروی رکھوا دیتا ہے۔ اسی ڈالرز کے لیے لوگوں کو اپنی عیدیں قربان کرنا پڑتیں ہیں۔ معاشی طبقاتی تقسیم ہر پل المیوں کو جنم دیتی جاتی ہے اور ریاست کی توجہ کھربوں ڈالرز کے منرلز نکال کر اسے ہارڈ سٹیٹ بنانے پر مرکوز ہے اور کتنی ہارڈ سٹیٹ بنانی ہے؟ اس سے اچھا بارہ کروڑ انسانوں کو نازیوں کی مانند گیس چیمبر میں ڈال کر پگھلا دو۔ قصہ خلاص۔
اس قدر گہری طبقاتی تقسیم دنیا کے کسی مہذب و غیر مہذب ریاست میں میں نے نہیں دیکھی۔ میں ریاست کی بات کر رہا ہوں مُلک کی نہیں۔ مجھے کوئی روانڈا، نائجر، شام و سوڈان کی مثالیں نہ دے۔ عرصہ ہوا میں اس واسطے اندرون ملک کی سفری داستانیں نہیں لکھتا کہ موضوع تلخ ہوتا جاتا ہے۔ یہاں قدم قدم پر ٹریجڈی ہے۔ جس معاشرے میں جی رہا ہوں بہت کچھ سہہ کر جی رہا ہوں۔ جب دل اوب جاتا ہے کچھ دنوں کے لیے راہ فرار اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ملک سے باہر کھُلی فضا میں جا کر سانس لینا پڑتا ہے۔ قلم کو بوجھل ہونے سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں۔
سسٹم پر کوئی کتنا لکھے اور کیا لکھے اور لوگوں سے کوئی کیا کہے اور کتنا کہے۔ ہر فرد معاشی طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ مذہبی و سیاسی گروہوں میں تقسیم ہے۔ ہر کسی کا اپنا حق سچ ہے اور وہ اسی دائرے کا مسافر رہتا ہے۔ نوجوانان جذباتی ہوتے ہیں۔ مڈ ایج کے لوگ اپنے نظریات پختہ کر چکے ہوتے ہیں وہ اس سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بڑی عمر کے افراد عقل کُل کی خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر جانب نفسانفسی، افراتفری اور چل چلاؤ ہے۔ پاکستانیت کبھی اُبھر ہی نہیں پائی۔ اپنا قبیلہ، اپنا علاقہ، اپنی زبان، اپنی جغرافیائی پہچان، اپنا سیاسی و مذہبی راہنما اور فل اسٹاپ۔
صرف اتنا ہی تو کرنا ہے جیسا حضرت علی کا فرمان ہے "برائی کو خود میں اور اچھائی کو دوسروں میں تلاش کرو"۔ دیکھتے دیکھتے معاشرہ بدلنے لگے گا۔ تقسیم کم اور اجتماعیت غالب ہونے لگے گی۔ مگر یہاں مقابل پر سے نگاہ ہٹے تو خود پر پڑے ناں۔
فرانسیسی ڈرامہ نویس آئینیسکو نے ایک ڈرامہ لکھا تھا، "کرسیاں (The Chairs)"۔ اس میں ایک ریٹائرڈ افسر رات کے کھانے پر شہر کے تمام بڑے عہدے والے افسروں کو دعوت پر بلاتا ہے۔ جب وہ ایک ایک کرکے آتے ہیں تو سٹیج پر اُن کے وجود کے بجائے اُن کی صرف کرسیاں رکھی جاتی ہیں۔ ان کرسیوں سے میزبان گفتگو کرکے بتاتا ہے کہ صاحبو درحقیقت تو تم صرف کرسیاں ہو۔ تم اس سسٹم میں اپنی شناخت گم کر بیٹھے ہو۔ میں بھی اپنے قارئین، آپ سب لوگوں سے بصدِ ادب یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امید ہے میرا یہ مضمون خالی کرسیوں سے خطاب نہیں ہوگا۔