Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Begum Ki Angrezi

Begum Ki Angrezi

بیگم کی انگریزی

ایک شناسا ہیں وہ تھائی لینڈ ہی بزنس کرتے ہیں اور وہیں شادی کر رکھی ہے۔ بیگم کے ہمراہ پہلی بار پاکستان آئے تو مجھے کال کر کے کہنے لگے کہ ابھی لاہور ہوں اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے ان کو گھر بلا لیا۔ بیگم کو کہا کہ مہمان آ رہے ہیں، تم کچھ بنا لو اور بھابھی تھائی ہیں ان کو کمپنی دے دینا تھوڑی۔ وہ سُن کر پریشان ہی ہوگئی۔ بولی "افف یار مجھے تو انگلش نہیں آتی اتنی۔ کبھی بولی ہی نہیں تو ان سے کیسے بات ہوگی، میں کمپنی کیسے دوں ان کو؟

"میں نے کہا کہ ٹینشن ناٹ۔ بھابھی تھائی ہیں وہ کونسا فل فلیج انگریز ہیں۔ ان کی انگریزی بہت اچھی ہوئی تو تم سے کچھ ہی بہتر ہوگی لہٰذا بے فکر ہو کے بولنا۔ کہیں پھنس گئی تو میں کور کر لوں گا۔ اس نے مجھ سے بیک اپ کرنے کا وعدہ لیا اور پھر بولی "میں پھر پاستا یا میکرونیز وغیرہ بنا لیتی ہوں۔ وہ یہی شوق سے کھاتے ہیں۔ آپ بیکری سے باقی کچھ لے آئیں"۔ میں نکلا اور بیک آئیٹمز و سویٹ لینے جلال سنز چلا گیا۔

مہمان آئے۔ بیٹھے۔ بھابھی نے بیگم سے پوچھا "واٹ ڈو یو ڈو پریٹی گرل"۔ بیگم نے دیدے گھما کے مجھے دیکھا۔ میں نے ہنس کے منہ پھیر لیا۔ بیگم نے جواب دیا "آئی ورک ایوری ڈے ود کڈز"۔ تھائی بھابھی نے حیران ہوتے کہا "اوہ۔ یور کڈز آسلو ورک؟" بیگم نے گھبرا کے کہا "نو نو، ہی اینڈ شی گوز ٹو سکول۔ آئی ورک"۔ بھابھی نے چہرہ میری جانب پھیر لیا تو میں نے بیگم کا ترجمان بنتے کہا "دراصل وہ کہنا چاہتی ہے کہ وہ ہاؤس وائف ہے اور سارا دن گھر میں بچوں کے ساتھ مصروف گزر جاتا ہے"۔

بیگم نے موقعہ غنیمت جانا اور کھانے کا سامان رکھنے میں مصروف ہوگئی۔ بھابھی نے پاستا چکھا اور اپنی پلیٹ کی جانب اشارہ کرتے بیگم کو بولیں" یو کُک؟" بیگم نے اسمائل دیتے کہا "یس۔ می کُک"۔ پھر بھابھی نے گاجر حلوہ چکھا اور بولیں۔ یو کُک؟" بیگم نے کہا "نو نو۔ جلال سنز"۔ جلال سنز کا سُن کر بھابھی نے پھر میری جانب دیکھا کہ اپنی بیگم کی ترجمانی یہی کر سکتا ہے۔ میں نے ان کو بتایا کہ یہ جلال سنز نامی بیکرز سے لیا ہے۔

خیر گھنٹہ ڈیڑھ بیٹھ کر وہ رخصت ہو گئے۔ ان کے جاتے ہی میں نے بیگم کو کہا "ارے یار انگریزی بولتے ہوئے سچ بولنا ضروری نہیں ہوتا۔ انگریزوں نے ہم سے کونسا سچ بولا ہے جو تم ان کی زبان بولتے سچ بولنا چاہتی تھی۔ انگریزی میں بات کرتے بس اپنی سہولت دیکھتے ہیں۔ جب بھابھی نے گاجر حلوے کے متعلق کہا کہ "یو کُک" تو سپمل ویسا ہی کہہ دیتی "یس، می کُک" اور بات ختم۔ "

پھر مجھے لیکچر دیتے نجانے کیا ہوا کہ مثال دے کر سمجھانا چاہا۔ "دیکھو، جیسے مجھ سے بیرون ملک کوئی لڑکی پوچھے" آر یو میریڈ؟" تو میں اسے لمبا چوڑا سچ بولنے کی بجائے سمپل کہتا ہوں"آئی ایم سنگل"۔ ورنہ سچ بولنے لگوں تو اتنا لمبا جملہ کہنا پڑے کہ ہاں شادی شدہ تو ہوں پر ہمارے ہاں شادیاں باامر مجبوری کرنا پڑتیں ہیں وغیرہ وغیرہ اور پھر یہ سب کہہ بھی دوں تو اگلی پوچھ لے گی کہ کتنے بچے ہیں؟ اور اسی چکر میں پڑا رہے انسان جواب دینے۔ "

یہ سُن کر وہ اُٹھی اور سیخ پا ہوتے اپنا تکیہ کلام بولی "شیم آن یو"۔ اسے کشمیری، سندھی اور اردو زبان آتی ہے۔ پنجابی اسے نہ سمجھ آتی ہے نہ بول سکتی ہے۔ آبائی علاقہ کشمیر ہے۔ پلی بڑھی کراچی میں۔ میں نے جب اس کی سمجھ میں لائے بنا کچھ بولنا ہو تو پنجابی میں کہہ دیتا ہوں۔ یہ سُن کر میں نے کہا "آہو اکو جملہ توں انگریزی دا سکھیا اے تے او وی شاید میرے ای واسطے"۔ فوری بولی "اردو میں بات کریں مجھ سے۔ بولیں کیا کہا؟ بولیں بولیں اب ڈر کیوں رہے ہیں؟"

میں نے اسے کہا کہ بیگم میں اردو میں بحث و جھگڑے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ کچھ نہیں کہا میں نے۔ بس مجھے ایک کپ چائے مزید بنا دو۔ سر درد لگ گئی ہے۔ جواب آیا "چائے۔ مائی فٹ" اور پاؤں پٹک کر وہ چلی گئی۔ میں نے پیچھے سے آواز دی" شاوا، پابی سامنے تیری انگریزی پھنسدی سی تے اودے جاندیاں ای تُوں انگریز بن گئی ایں"۔ میری قسمت بری کہ بیگم نے بیٹی سے میری بات کا ترجمہ کروا لیا۔ بیٹی کو پنجابی سمجھ آ جاتی ہے۔ رات گئے تک میں بیگم سے بہانے بہانے سے طعنے سُنتا رہا جن کے مطابق اس کے بچپن سے لیکر آج تک کی ساری محرومیوں کا ذمہ دار صرف و صرف میں ہوں۔

Check Also

Saudi Arabia Mein Anar Ki Kasht

By Mansoor Nadeem