Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Barson Pehle

Barson Pehle

برسوں پہلے

برسوں پہلے ائیرامارات سے ملائیشیا جانا ہوا۔ یہ سن 2008 تھا۔ میرا یہ زندگی کا پہلا بیرون ملک دورہ تھا۔ ان دنوں تھائی ائیر اور ائیر ملائیشیا بھی چلا کرتی تھی، مگر امارات سے جانے پر فائدہ یہ تھا کہ ان دنوں امارات کی ٹکٹ ان دونوں سے سستی تھی۔ میری پہلی شادی کو دو سال بیت چکے تھے۔ ان دنوں سیالکوٹ اپنے آبائی گھر میں رہائش پذیر تھا۔ میرے ایک محلے دار دوست راحیل کی آسٹریلیا میں نوکری لگ گئی تھی۔

ہم دنوں نے دبئی تک ساتھ جانے کا پلان بنایا۔ اس نے دبئی سے آسٹریلیا چلے جانا تھا اور مجھے ملائیشیا۔ راحیل اور میں نوعمری سے دوست تھے۔ روزانہ شام محلے میں کرکٹ کھیلتے تھے۔ فریش گریجوئٹ تھے۔ اس کی قسمت اچھی کہ اسے آسٹریلیا میں نوکری مل گئی۔ نوجوانی تھی اور ہم دونوں کی زندگی کا یہ پہلا بیرون ملک کا سفر تھا۔ لاہور سے دبئی اترے۔ میری اگلی فلائٹ میں سات گھنٹے اور اس کی فلائٹ میں آٹھ گھنٹوں کا فرق تھا۔

کسی نے ہم کو بتایا کہ دبئی ائیرپورٹ پر امارات کے لاؤنج میں چلے جانا۔ وہاں وی آئی پی ماحول ہوتا ہے۔ کھُلا کھانا پینا ہوتا ہے۔ یوں ہوتا ہے تو ووں ہوتا ہے۔ ہم اترے اور لاؤنج میں داخل ہو گئے۔ ہم دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لاؤنجز تو بزنس کلاس مسافروں کے لیے مفت ہوتے ہیں اکانومی کلاس مسافروں کے لیے تو مفت نہیں ہوتے۔ ہم منہ اٹھا کر اپنی مستی میں اندر داخل ہو گئے۔ ریسپشن پر بیٹھے دو مردوں نے روک لیا اور پوچھا کہ بھیا کدھر؟

ہم نے کہا کہ اِدھر ہی اور کدھر، اس نے ہمارے بورڈنگ پاس مانگے۔ ہم دونوں نے جھَٹ سے نکال کر سامنے رکھ دئیے۔ اس نے واپس کرتے کہا " آپ یہاں داخل نہیں ہو سکتے۔ سوری، آپ بزنس کلاس کے مسافر نہیں ہیں۔ اگر آپ انٹری چاہتے ہیں تو اسی ڈالرز پر پرسن پے کرنا ہوں گے۔ ورنہ آپ جا سکتے ہیں۔ یہ ٹکا سا جواب سُن کر ہم دونوں کو بے عزتی محسوس ہوئی۔ راحیل نے جواب دیا " اوکے۔ ہم پیسے دے دیتے ہیں۔

میں نے اسے روکنا تو چاہا مگر سب کے سامنے نہیں روک پایا۔ اسی ڈالرز پر ہیڈ ہمارے لیے خاصی خطیر رقم تھی۔ راحیل نے اپنے ڈالرز نکالے۔ میں نے اپنے۔ مرد نے ہمیں بل تھمایا اور مسکراتے ہوئے بولا " ویلکم۔ آپ یہاں تین سے چار گھنٹے رک سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں۔ ہم اندر داخل ہو کر پریشان سے بیٹھ گئے۔ میں نے راحیل کو کہا کہ یہ بہت مہنگا پڑ گیا ہے۔ خوامخواہ جذباتی ہو کر پیسے نکال دئیے ہیں۔ وہ بھی اپ سیٹ تھا۔

اس نے جواب دیا " کوئی نہیں مہدی زندگی آج سے ہی تو شروع ہوئی ہے ہماری۔ اس سے پہلے تک تو ملک کے اندر ہی لوگوں سے تھُوک لگواتے تھے۔ یہ تجربہ بھی سہی۔ اب چلو انجوائے کریں اور اتنا کھائیں اتنا کھائیں کہ اسی ڈالرز ان کے ذمے واجب الادا ہو جائے۔ صاحبو۔ اس دن ہم دونوں نے انی ڈال دی۔ بیکنگ آئیٹمز، ڈیزرٹس، مین کورسز، جوسز، آئس کریم اور نجانے کیا کیا۔ تین گھنٹے گاہے گاہے ہم دونوں کھاتے رہے۔

کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔ راحیل نے تو ہینی کین بئیر کے دو گلاس بھی چڑھا لیے۔ کھانے کے بیچ گفتگو کا وقفہ لیتے اور پھر کچھ نہ کچھ کھانے لگتے۔ دراصل ہم دونوں اپ سیٹ تھے۔ اور اپ سیٹ ہو کر انسان غصے میں ہوتا ہے۔ عملہ ہم دونوں کو نوٹ کر رہا تھا اور اس نے کرنا ہی تھا۔ ہم مسلسل دندناتے کھاتے پھر رہے تھے۔ چار گھنٹے یونہی گذر چکے تو شاید تنگ آ کر عملے نے ایک خاتون کو بھیجا۔

لڑکی نے انتہائی مہذب طریقے سے کہا" سر، آپ کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ اگر آپ مزید رکنا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔ راحیل نے مجھے کہا " ابے یار ابھی تو تمہاری فلائٹ میں تین گھنٹے اور میری فلائٹ میں چار گھنٹے باقی ہیں۔ اب کیا کریں؟ چل اُٹھ یہاں مین لابی سے اُٹھ کر وہ آخری نکڑ میں بنے سموکنگ ہال میں چل کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم دونوں عملے کی نظروں سے بچنے کو سموکنگ روم میں چلے گئے۔

وہاں دھواں دار ایک گھنٹہ بِتایا۔ راحیل واش روم کرنے گیا۔ واپس آیا تو اس کے چہرے پر خوشیاں تھیں۔ جپھی ڈالتے ہوئے بولا " اوئے شفٹ بدل گئی او۔ مجھے سمجھ نہ آئی۔ وہ مجھے حیران دیکھ کر بولا" او یار شفٹ بدل گئی ہے۔ سارا عملہ نیا آ گیا ہے۔ چل واپس لابی میں چلیں۔ کھائیں پئیں، شفٹ بدل چکی تھی اور سارا عملہ نیا تھا۔ اس روز ہم نے اپنی فلائٹ تک سارا وقت امارات کے لاؤنج میں گذارا اور بہت خوش ہوتے رہے کہ دیکھا اسی ڈالرز پورے کر لیے۔

راحیل نے وہاں شادی کر لی اور سیٹ ہوگیا۔ پھر وہ آسٹریلیا سے بھی جرمنی شفٹ ہوگیا۔ چار دن قبل میں مراکو میں تھا۔ اس کا واٹس ایپ آیا، جس میں اس کی شادی کا کارڈ تھا اور میسج تھا کہ لازمی آنا ہوگا مجھے۔ کافی عرصے بعد بات ہوئی کیونکہ وہ اپنی لائف میں مصروف رہا اور میں بھی۔ کارڈ دیکھ کر پوچھا تو معلوم ہوا کہ دوسری شادی کر رہا ہے اور پاکستان آیا ہوا ہے۔ پہلی شادی ناکام ہوئے سال ہو گئے۔ اب اس کی والدہ نے پاکستان میں لڑکی ڈھونڈی ہے۔

میں نے یہ جان کر اسے مبارک دی اور کہا " اوئے شفٹ بدل گئی او۔ چل کھائیں پئیں۔ اب مزید کھانا پینا ہے، مگر اس کی بدلی ہوئی شفٹ کے موقعہ یعنی اس کی دوسری شادی پر۔ شفٹ میری بھی بدل چکی ہے۔ ہائے زندگی، کبھی ہنساتی ہے تو کبھی روہانسا چھوڑ دیتی ہے۔

وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر، کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں

Check Also

Labour Day

By Hussnain Nisar