Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Barbara, Mister Khan Aur Bukhari

Barbara, Mister Khan Aur Bukhari

باربرا، مسٹر خان اور بخاری

باربرا آسٹریلیا سڈنی میں مشہور ڈاکٹر ہے۔ یہ ننھے بچوں کے دل کی اسپیشلسٹ ہے۔ باربرا نے بتایا کہ دُنیا میں صرف بارہ سے پندرہ ایسے اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں جو ننھے بچوں کے دل کی پیچیدہ بیماریوں کو سمجھتے ہیں لہٰذا اس کی زندگی اپنے شعبے میں مشین سی بنی ہوئی ہے۔ باربرا سے میری ملاقات پچیس اگست سنہ 2018 میں لاہور میں ہوئی۔ اور کیسے ہوئی یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے۔

ایک دن مجھے ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن لاہور آفس سے کال آتی ہے کہ ایم ڈی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں ملاقات کو چلا گیا۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ شاید ٹورازم والوں کو میرے کام سے کوئی کام پڑ گیا ہے تو چل کر سُن لیں۔ ایم ڈی صاحب نے کافی آؤ بھگت کی اور پھر مدعے پر آئے۔ بولے "بخاری صاحب دراصل ایک آسٹریلین سیاح باربرا ہے جو لاہور پی سی ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ہے۔ مجھے کہا گیا ہے کہ آپ کو انگیج کروں اور آپ اسے اندرون لاہور کی سیر کروا دیں۔ "

یہ سُن کر میں نے کہا "جناب میں ٹور گائیڈ نہیں ہوں۔ آپ کو کسی نے غلط انفارمیشن دے دی ہے۔ یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ " جواب آیا "اوپر سے کہا گیا ہے۔ زلفی بخاری صاحب کی جانب سے آپ کا نام لے کر کہا گیا ہے۔ اگر آپ نہیں کر سکتے تو آپ پر کوئی فورس نہیں میں بتا دوں گا کہ آپ نے انکار کر دیا ہے۔ " یہ سُن کر میں نے حامی بھر لی اور کیوں بھر لی وہ بھی بتائے دیتا ہوں۔

باربرا کے قضئیے سے تین ماہ قبل نتھیا گلی میں ٹورازم پر کانفرنس منعقد ہوئی۔ تحریک انصاف کی حکومت نئی نئی بنی تھی۔ ٹورازم کو لے کر ان دنوں بہت پھرتیاں دکھائی جا رہی تھیں۔ اس کانفرنس ہال کو میرے کام سے سجایا گیا تھا اور میں وہاں اسپیکر بھی تھا۔ زلفی بخاری صاحب نے کانفرنس کے بعد مجھے اسلام آباد انوائٹ کیا۔ اسی رات اسلام آباد ان سے ملاقات ہوئی۔ ان دنوں میں یونیورسٹی چھوڑ چکا تھا اور بیروزگاری کے دن کاٹنے کو لاہور میں اُبر اور کریم چلا رہا تھا۔ ساتھ ہی فیڈرل سروس پبلک کمیشن کا امتحان دے چکا تھا اور اب بورڈ انٹرویو کے انتظار میں تھا۔ یعنی اپنا کچن چلانے کو محنت مشقت سے دن گزار رہا تھا۔

دورانِ ملاقات بخاری صاحب نے مجھے سیاحت پر بنے آنرری بورڈ کا ممبر بننے کی دعوت دی۔ فرمانے لگے کہ یہ بورڈ بنانے کا مقصد سیاحت کے شعبے کو عروج دینا ہے۔ اس میں شعبہ سیاحت سے متعلقہ شخصیات کو لیا جا رہا ہے۔ یعنی سیاح، کوہ پیما، بائیکرز یا سائیکلسٹس وغیرہ۔ ثمینہ خیال بیگ، نذیر صابر وغیرہ وغیرہ اس کے ممبر ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ میں بھی اس بورڈ میں آؤں اور سیاحت کے فروغ کی خاطر تجاویز دینے کے ساتھ ساتھ اپنا ہنر بھی بروئے کار لاؤں۔

یہ سب سُن کر میں نے کہا "بخاری صاحب، میں نوکری کی تلاش میں ہوں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن پاس کر چکا ہوں اور یہ موجودہ حالات ہیں۔ اگر یہ بورڈ آنرری ہے تو اس میں تنخواہ وغیرہ تو نہیں ہوگی۔ فی الحال مجھے اپنے بال بچوں اور کچن کی فکر ہے۔ اگر تنخواہ ہوتی تو غور کرتا۔ یہ آنرری اعزاز کچن نہیں چلا سکتے۔ فی الحال میں یہ خدمت سرانجام دینے سے قاصر ہوں۔ " میری داستان سُن کر بولے "ہاں۔ تنخواہ تو نہیں ہے نہ ہی کوئی مالی سپورٹ ہے۔ یہ بس آنرری بورڈ ہے۔ ٹھیک ہے مگر میرے لائق کوئی کام ہوا تو بتائیے گا۔ " میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہ ملاقات بہت خوشگوار نوٹ پر ختم ہوگئی۔

باربرا کو لاہور گھمانے کی وجہ بس برائے مروت تھی۔ اگلے دن میں نے اسے ہوٹل سے پِک کیا۔ والڈ سٹی کا دورہ کیا۔ دوپہر ہونے کو آئی تو میں اسے دیسی کھانا کھلانے بادشاہی مسجد کے عقب میں واقع فوڈ سٹریٹ لے گیا۔ روف ٹاپ پر کھانا کھایا۔ باربرا آغاز میں تو محتاط سی رہی مگر کھانے تک وہ مجھے جان کر ایزی ہو چکی تھی۔ کھانے کے دوران اس نے اپنی کتھا سنائی۔

"سنہ 2016 میں سڈنی میں تحریک انصاف نے ایک چیرٹی پروگرام منعقد کیا۔ میری بہن جو ڈاکٹر بھی ہے اسے مدعو کیا گیا۔ وہ چیرٹی کاموں میں کافی حصہ لیتی ہے۔ بہن نے مجھے کہا کہ عمران خان آ رہا ہے چلو تم بھی ساتھ چلو۔ میں عمران خان کو کرکٹ کے حوالے سے جانتی تھی۔ آسٹریلیا میں کرکٹ بہت پاپولر کھیل ہے۔ میں نے سوچا چلو مسٹر خان کو ملتے ہیں۔ تقریب میں بزنس مین، کھلاڑی اور مختلف شعبوں سے وابستہ مشہور لوگ شریک تھے۔ میری بہن نے میرا تعارف مسٹر خان سے کروایا۔ "

یہ کہہ کر اس نے کچھ توقف کیا اور ہنسنے لگی۔ اسے ہنستا دیکھ کر مجھے لگا کہ وہ کچھ بتانا چاہتی ہے اور سوچ کر ہنس رہی ہے۔ میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا "پھر کیا ہوا؟"

"خان نے اس تقریب میں فلرٹ کیا۔ میں جانتی تھی کہ مشہور لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے لہٰذا اس کو لائٹ لیتی ہوں۔ مسٹر خان نے مجھے کہا کہ تم کو پاکستان ضرور دیکھنا چاہئیے۔ جب بھی آؤ تم میری مہمان ہوگی۔ مجھے آگاہ کر دینا۔ سارا بندوبست ہو جائے گا۔ "

یہ سن کر میں نے کہا "پھر تم پاکستان آئی تو مسٹر خان کو بتایا؟ وہ اب پرائم منسٹر خان ہیں۔ "بولی" بات پوری تو سنو۔ اس تقریب کے اختتام پر ایک پرائیویٹ ڈنر ارینج کیا گیا تھا جس میں صرف وہ مہمان مدعو تھے جنہوں نے چیرٹی دی تھی۔ میری بہن نے کافی رقم عطیہ کی تھی۔ ہم دونوں بھی مدعو تھے۔ اس ڈنر پر پھر مسٹر خان نے مجھے کافی وقت دیا۔ واپس گھر آتے میں نے بہن کو بتایا کہ خان نے مجھے پاکستان دورے کی دعوت دی ہے۔ بہن سن کر ہنسی اور بولی تم لکی ہو۔ جاؤ پھر پاکستان گھوم آؤ۔ میں سب سے پہلے 2007 میں پاکستان آئی تھی اور یہ تم کو بتا دوں کہ پاکستان کا میرا یہ پانچواں ٹور ہے۔ مجھے قراقرم کے پہاڑوں میں سکون ملتا ہے۔ "

میں نے باربرا کو دیکھا "اچھا تو تم نے اس بار پاکستان کا دورہ اسی لیے کیا؟ وی آئی پی پروٹوکول ملا؟" وہ ہنستی جاتی تھی۔ پھر ہنستے ہنستے بولی "نہیں۔ میں نے تو کسی کو بتایا ہی نہیں۔ میں کام کے لوڈ کے سبب ڈپریشن کا شکار ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ کچھ دنوں کام سے رخصت لو اور کہیں چھٹیاں گزار کر آؤ۔ میری ایک نیٹ فرینڈ بنی۔ اس کا تعلق ہنزہ کے گاؤں پھسو سے تھا۔ میں پاکستان آئی اور سیدھا ہنزہ چلی گئی۔

اس دوست کے پاس بائیس دن گزارے ہیں۔ دو دن پہلے لاہور آئی۔ میری کل روانگی ہے۔ لاہور آکر سوچا کہ جانے سے قبل مسٹر خان کو بتا ہی دیا جائے کہ میں پانچویں بار پاکستان دیکھ کر واپس جا رہی ہوں۔ میں نے انہیں پیغام پہنچایا۔ اس طرح شاید انہوں نے آگے کسی منسٹر کو کہا اور اس طرح یہ سرکل چلتے تم تک پہنچا اور اب ہم دونوں یہاں بیٹھے لنچ کر رہے ہیں۔ "

یہ سن کر میں بولا "ارے غلطی کی۔ ان کو بتا دیتی تو تمہارا وی آئی پی ٹور ہو جاتا۔ " جواب آیا "نہیں میں اکیلے گھومنا چاہتی تھی۔ مجھے نہیں چاہئیے وی آئی پی۔ " اس دن باربرا نے جو کچھ بتایا اس میں سے جتنا بتایا جا سکتا تھا بتا چکا۔ باربرا دوست بن گئی۔ میرا آسٹریلیا جانے کا پلان بنا تو میں نے اس کو واٹس ایپ میسج کر کے مطلع کیا۔ باربرا نے مجھے کہا کہ سڈنی میں تم کو گاڑی مل جائے گی، فلیٹ بھی مل جائے گا۔ بس تم گاڑی لے کر نکل جاؤ اور میرا ملک خوب گھومو۔

عید کے بعد جانا ہوگا۔ کوشش کروں گا آپ کو باربرا سے روبرو کروا کے انٹرویو کر لوں۔ پاکستان اس کو بہت اچھا لگتا ہے۔ یہ جن دنوں وہ لاہور تھی ان دنوں اس کے پاکستان بارے تاثرات موبائل پر ریکارڈ کیے تھے۔

Check Also

Taiwan

By Toqeer Bhumla