Bahria Town Lahore
بحریہ ٹاون لاہور
بحریہ ٹاون ایک الگ دنیا ہے۔ لاہور سے لوگ یہاں تفریح کی غرض سے آتے ہیں۔ تلوار چوک کے فواروں کے اطراف پکنک مناتے ہیں، پانی کی پھواروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ گرینڈ مسجد کے صحن اور راہداریوں میں کون آئس کریم کھاتے انجوائے کرتے ہیں۔ صراحی چوک کی صراحیوں پر چڑھ کر تصاویر بنوانے کے ساتھ ساتھ ان صراحیوں میں جھانک کر بھی دیکھتے ہیں کہ شاید ملک ریاض نے خزانہ ان کے اندر بھی چھپایا ہو۔
بحریہ کے سیکیورٹی اہلکار مشتبہ افراد کو روک روک کر ان سے گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں۔ ایفل ٹاور کے نیچے ہجوم لگا رہتا ہے۔ بحریہ کا ایفل ٹاور بھی اتنا پاپولر ہو گیا ہے کہ ایک بار ایک دوست نے سچ مچ کے ایفل ٹاور کے سامنے پیرس میں اپنے فینز کے لئے ویڈیو بناتے ہوئے بات کی تو نیچے آدھی دنیا نے کمنٹ کیا کہ بحریہ ٹاون کا ایفل ٹاور کتنا real لگتا ہے۔
بحریہ ایک تفریح گاہ ہے۔ عیدوں و تہواروں پر، مقامی چھٹیوں پر اہلیان لاہور جوق در جوق ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ ایک چینل کی ڈاکومینٹری کے لئے میں نے اپنے تاثرات ریکارڈ کروانے تھے۔ ان کی ٹیم نے ایفل ٹاور بحریہ کا انتخاب کیا اور میں وہاں جا کر ان کے سوالات کے جوابات دینے لگا اور ان کے دو کیمرا مین مختلف اینگلز سے ریکارڈنگ کرنے لگے۔ چھٹی کا دن تھا تو کافی رش تھا۔ لوگ ساری ایکٹی ویٹی چھوڑ کے یوں جمع ہونے لگے جیسے میں مداری کا سانپ ہوں اور جھوم رہا ہوں۔ ننھے منے بچے منہ میں قلفی ڈالے یوں دیکھنے میں اس قدر مگن تھے کہ قلفی پگھلتی جا رہی تھی۔
مجھ سے نہیں رہا گیا تو میں نے پروڈیوسر سے کہا کہ ایسا کریں میرے گھر کے سامنے بنے پارک میں آ جائیں وہاں کم سے کم ایسا رش نہیں ہو گا نہ وہاں کوئی گھیرا ڈال کر منہ کھولے کھڑا ہو گا۔ جعلی ایفل ٹاور سے پیک اپ کر کے ہم گھر کے سامنے والے سرسبز میدان میں آ گئے۔ جیسے ہی ہم پہنچے پیچھے پیچھے بائیک پر لوگ آنا شروع ہو گئے۔ ریکارڈنگ شروع ہونے تک سنسان گراونڈ میں دس پندرہ بندے اور نوجوان جمع ہو چکے تھے اور وہ ویسے ہی دیکھ رہے تھے جیسے میں مداری کا سانپ ہوں۔
یہاں ایک مور چوک واقع ہے جس کے مرکز میں مور کا مجسمہ ایستادہ ہے۔ ایک بار کوئی ناہنجار اس مور پر سپرے سے لکھ گیا "ملک ریاض ڈاکو ہے"۔ انتظامیہ کو تھرتھلی پڑ گئی۔ فوری طور پر اور تو کچھ نہ سوجھا انتظامیہ نے مور پر ہنگامی طور پر دستیاب نیا رنگ کر دیا۔ زندگی میں پہلی بار مجھے اورنج کلر کا سر تا پنکھ یک رنگا مور دیکھنا نصیب ہوا۔ انتظامیہ کی پھرتی اور مور کی صورت دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ لکھنے والا حق لکھ گیا تھا۔
یہاں کی سیکیورٹی کے کیا کہنے۔ سارا عملہ فوج یا پولیس سے رئیٹائر افراد پر مشتمل ہے۔ آپ کو بحریہ کی سیکیورٹی میں پولیس کے رئیٹائر سپاہی سے لے کر فوج کے رئیٹائر بریگیڈئیرز تک ہر رینک کا فرد ملے گا۔ ایک منحوس دن میری بیگم کا پرس کھو گیا جس میں اس کا کل اثاثہ یعنی زیور پڑا ہوا تھا۔ ایک شادی سے رات گئے آنا ہوا تو بیگم نے واپسی پر زیور اتار کر بیگ میں رکھ لیا اور بیگ گاڑی سے نکلتے ہی بے دھیانی میں باہر گرا آئی۔
خیر سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے بندہ پکڑا گیا۔ بیگ اٹھانے والا بحریہ کا ملازم کچرا اٹھانے والا تھا۔ زیور برآمد ہو گیا۔ مجھے سیکیورٹی عملے نے خوشخبری سنائی اور زیور میرے حوالے کرتے ہوئے باقاعدہ فوٹوسیشن کروایا تاکہ سوسائٹی کے پیج پر خبر لگائی جا سکے۔ جب میں وہاں سے رخصت ہونے لگا تو سوچا کہ چھوٹے عملے نے کافی بھاگ دوڑ کی ہے اور وہ میری جانب ملتجیانہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں جیسے ریسٹورانٹ میں ویٹر ٹپ کی نظر سے دیکھتا ہے۔
میں نے شاباشی کے لیے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا اور ٹیبل پر دھرتے کہا "یہ آپ لوگ چائے پانی پی لیجئیے گا"۔ عملے کے افسر نے مجھے دیکھا، پھر نوٹ کو دیکھا اور بولا "شاہ صاحب اے تھوڑے نیں" میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ افسر فوج سے رئیٹائر تھا یا پولیس سے۔
اللہ بحریہ کی رونقیں بحال رکھے۔ شاہکام دیاں خیراں، تلوار چوک دے صدقے۔