Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Avocado

Avocado

ایواکاڈو

ایواکاڈو کو گرین گولڈ کہا جاتا ہے۔ مہنگا پھل ہے۔ اس پھل کے جتنے فوائد مجھے بیگم نے گنوائے اس کے بعد میں ایواکاڈو کو رشک کی نظر سے دیکھنے لگا ہوں وگرنہ تو یوں تھا کہ کبھی اس پر دوسری نظر بھی نہ ڈالی تھی۔ بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میں اس کو بطور پھل جانتا بھی نہیں تھا۔ ہوا یوں کہ واٹس ایپ ویڈیو کال پر میں بیگم سے بات کر رہا تھا۔ سر راہ فون اٹھا کر ویڈیو کال پر چلتے ایک سٹور میں داخل ہوا۔ اچانک بیگم کی نظر ایواکاڈو پر پڑی۔ فون کے اندر سے یکایک چیخنے کی آواز آئی "اوہ ایواکاڈو ایواکاڈو ایواکاڈو"۔

میں نے گھبرا کے بیگم کو دیکھا جس کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔ میں فوراً گھبرا سا گیا۔ مجھے لگا بیگم نے کسی ایواکاڈو نامی فارنر خاتون کو یا تو ساتھ دیکھ لیا ہے یا پھر کوئی میسج کسی کا میں بے دھیانی میں بیگم کو بھیج بیٹھا ہوں۔ میرے سارے سینسز فوری طور پر چوکنے ہو کر سوچنے لگے کہ ایواکاڈو کون ہے۔ میرے ذہن میں اولیویا آئی جو برطانوی ہے اور شاید اس کا نِک نیم کچھ اسی قسم کا عجب سا تھا۔

اس سے قبل کہ میں وضاحت پیش کرتا بیگم پھر گونجی "یہ آپ کے پیچھے ایواکاڈو ہے ناں؟" میں نے چیتے کی پھُرتی سے پلٹ کر دیکھا۔ وہاں کوئی نہیں تھی۔ میں نے کہا یار یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ جواب آیا "آپ کی آنکھیں کھُلتیں ہی کہاں ہیں۔ وہ دیکھیں آپ کے پبچھے گرین کلر کا امرود جیسا ایواکاڈو ہے"۔ تب مجھے سمجھ آئی کہ اچھا یہ سبزی نما سا کچھ جو ہے یہ ایواکاڈو ہے۔ وہاں چھوٹی سی پلیٹ پر لکھا ہوا تھا "avocado"۔

اس دن بیگم نے اس پھل کے بارے انتہائی جذباتی ہوتے بتایا کہ یہ پاکستان میں بہت مہنگا ملتا ہے۔ سونے کے بھاؤ فروخت ہوتا ہے۔ اس کو کوٹ کر اس کا پیسٹ چہرے پر لگانے سے یوں ہو جاتا ہے ووں ہو جاتا ہے۔ یہ پتلا کرنے میں انتہائی مددگار ہے۔ اس کا شیک بنا کر پئیں تو یہ فائدہ ہے۔ الغرض دنیا جہاں کی خصوصیات اس نے ایواکاڈو میں گنوا دیں۔ فون بند ہوا تو میں نے ایواکاڈو کا سانس لیا۔

وطن واپسی سے قبل میں نے سوچا کہ چلو سرپرائز دیا جائے۔ میں نے دو درجن ایواکاڈو خرید ڈالے۔ مراکو میں یہ پیدا ہوتا ہے لہذا وہاں تو مقامی پھل ہے۔ کاسا بلانکا ائیرپورٹ سے رخصت ہوتے میرا بیگ سکین ہوا۔ سیکیورٹی اہلکار نے کہا اس کو کھولیں۔ میں نے کھولا تو اس نے سیدھا ایواکاڈو کے پیک اٹھائے اور کہا کہ بس یہی ہیں یا اور بھی کوئی کھانے کی اشیاء ہیں؟ میں نے سوچا کہیں یہ ضبط ہی نہ کر لے۔ ہنستے ہوئے کہا "سر، یہ بیگم کی فرمائش ہے۔ پاکستان میں نہیں ملتا۔ سوچا گفٹ لے جاؤں کچھ"۔ اس نے جواباً سمائل دی اور کہا "ہاں، ضرور"۔ اور پھر ایواکاڈو جہاز چڑھ گیا۔

آج علیٰ الصبح میں چوبیس گھنٹوں کا سفر کر کے لمبی لمبی فلائٹس لے کر گھر پہنچا۔ تھکا ہارا تھا۔ نیند سے سر چکرا رہا تھا۔ کچھ دیر میں سو گیا۔ آنکھ کھُلی تو بیگم میرے بیگ کی تلاشی لے چکی تھی۔ اس نے وہ پیسٹ بھی بنا لیا تھا جو اس نے چہرے پر مل رکھا تھا۔ مجھے دوپہر کے کھانے کے لیے بڑے پیار سے جگانے آئی۔ میری آنکھ کھُلی تو دیکھا کہ سبز رنگ کا پیسٹ سا ہے جو اس کے چہرہ پر لگا ہوا ہے۔ میں نے کہا "اوہ۔ ایواکاڈو آخر کار اپنے اصل مقام پر پہنچ ہی گیا۔ " اس نے سمائل دی اور بولی "ہاں۔ یہ ٹھنڈا سا لگ رہا ہے۔ جیسے Mint ہوتا ہے۔ "

کھانا آیا۔ کھاتے ہوئے کہا "پھر اچھا لگا ناں تحفہ؟" وہ سُن کر بولی "میں نے پورا بیگ کھنگال لیا ہے۔ تحفہ کدھر ہے؟ آپ نے کہیں چھُپا کے رکھا ہے سرپرائز دینے کو ناں"؟ یہ سُنتے ہی میرے حلق میں لقمہ پھنس گیا۔ میں نے کہا "او ہاں، یاد آیا۔ وہ دراصل بیگم میں نے سوچا تھا کہ تم کو گولڈ بریسلٹ گفٹ کروں گا۔ مراکو سے گولڈ 18 کیرٹ کا ملتا ہے۔ میں نے سوچا پاکستان سے اچھا ملتا ہے تو واپس جا کر تم کو تمہاری پسند کا ڈیزائن ہی دلوا دوں۔ " یہ سُنتے ہی وہ چہک اُٹھی۔ بہت خوش ہے۔ مگر مجھے وہ ایواکاڈو زہر لگ رہے ہیں جو میں بطور تحفہ بیکار میں خرید لایا ہوں۔ اپنی طرف سے یہی تحفہ سمجھا تھا۔ اب وہ گرین گولڈ دیکھتا ہوں تو خون کھول اُٹھتا ہے۔

Check Also

Aayen Phir Shah Hussain Se Milte Hain

By Haider Javed Syed