Ausaf e Trump
اوصافِ ٹرمپ

آئیے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملیے۔ قد چھ فٹ تین انچ، عمر 78 برس، نسلی شجرہ جرمن، فرقہ پروٹسٹنٹ، رہائشی پتہ نیویارک، یونیورسٹی آف پنسلوینیا گریجویٹ، معاشقے بیسیوں، شادیاں تین، طلاقیں دو، بچے پانچ، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں سات، ذاتی دولت کا اندازہ چھ ارب ڈالرز، عمدہ کھانے کے بے حد شوقین، این بی سی کے مقبول رئیلٹی شو اپرینٹس کے بارہ برس تک اینکر۔ مگر بنیادی وجہ شہرت والد سے ورثے میں ملا رئیل اسٹیٹ کاروبار ہے۔ اس کی مدد سے دیگر کاروباری شعبوں میں بھی ہاتھ ڈالا۔ ٹرمپ ماڈل مینجمنٹ کے تحت 1995 سے مس یونیورس اور مس یو ایس اے مقابلے بھی منعقد کروا رہے ہیں۔
ٹرمپ کو سیاسی شہرت سنہ 2011 میں ملی جب اس نے بارک اوباما کی امریکی شہریت چیلنج کی۔ اوباما نے جب ریاست ہوائی کا برتھ سرٹیفکیٹ لہرا دیا تو ٹرمپ نے پینترا بدل کر کہا خدا معلوم نقلی ہے کہ اصلی! ۔۔ ٹرمپ کے چھیاسٹھ فیصد حامیوں کو آج بھی یہ یقین ہے کہ اوبامہ نہ صرف غیر ملکی بلکہ مسلمان بھی ہے۔ یہ ہوتی ہے سیاسی ہوائی بازی!
ڈونلڈ ٹرمپ جو منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔ چند اقوالِ زریں پیشِ خدمت ہیں۔
* مجھ میں اور دیگر امیدواروں میں یہ فرق ہے کہ میں زیادہ ایمان دار اور مجھ سے متعلق خواتین زیادہ حسین ہیں۔ خواتین کے باب میں بس ایک افسوس رہے گا کہ لیڈی ڈیانا کو راغب نہیں کر سکا۔
* فاکس نیوز کی میزبان میگن کیلی نے مجھ سے الٹے سیدھے سوال پوچھے۔ شاید ماہواری کے سبب۔
* میں نے کچھ برا نہیں کیا۔ میں نے کیا برا کیا؟ مجھے پسند کرو یا ناپسند مگر ٹرمپ جو چاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے۔ زندگی میں ہر شے قسمت سے جڑی ہے۔ میری ایک خوبی یہ بھی ہے کہ میں امیر ہوں۔ میں بے وقوف نہیں خاصا سمارٹ آدمی ہوں۔ میں نے ہمیشہ سخت فیصلے کیے ہیں اور نتائج پر بھی نظر رکھی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکا کا نظام ایک کاروبار کی طرح چلایا جائے۔
* جمی کارٹر ایرفورس ون سے اترتے ہوئے اپنا بیگ خود اٹھاتے تھے۔ کارٹر شریف آدمی تھے لیکن ہمیں ایسا صدر چاہیے جو باہر نکل کے تشریف پے ٹھڈا رسید کرے اور جیت جائے نہ کہ انڈر وئیرز سے بھرا بیگ اٹھاتا پھرے۔
* سست روی سیاہ فاموں کا وصف ہے۔ وہ میری دولت گن رہے ہیں اور اس عادت سے مجھے نفرت ہے۔
امریکی صدارتی امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے چندوں اور سپانسر شپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ارب پتی پراپرٹی ٹائیکون ٹرمپ کو کبھی چندے کی حاجت نہیں رہی اور سونے پہ سہاگا کے مصداق دنیا کا امیر ترین ٹیک گائے ایلون مسک پیٹی بھائی ثابت ہوا۔
ٹرمپ کھل کے ایک عام امریکی کے سلامتی اور معاشی احساسِ عدم تحفظ کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مثلاً امریکا میں ہسپانوی نژاد ووٹرز بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ کو یہ کہنے میں کبھی عار نہیں ہوا کہ میکسیکو (ہسپانوی نژاد اکثریت کا ملک) سے جتنے بھی لوگ غیر قانونی طور پر امریکا آ رہے ہیں ان میں سے اکثریت منشیات کے عادی جرائم پیشہ ریپسٹ لوگوں پر مشتمل ہے۔ صدر بننے کے بعد وہ میکسیکو سے ملنے والی سرحد پر اونچی دیوار بنائیں گے اور خرچہ میکسیکو سے وصول کریں گے۔
مثلاً وہ کینیڈا کو کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ ضم ہو کر گریٹ امریکا بن جاؤ ورنہ تم کو بھری دنیا میں کون تحفظ دے پائے گا؟ مثلاً وہ پانامہ کینال پر مکمل قبضے کی بات کرتے یہ نہیں سوچتا کہ باقی دنیا کیا سوچے گی۔ مثلاً وہ گریٹر اسرائیل کا پرزور حامی ہے اور جب وہ گریٹر اسرائیل کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب غزہ کا مکمل صفایا ہے۔ الغرض ٹرمپ نے امریکیوں میں احساسِ عدم تحفظ کو خوب اُبھار کر اسے ٹرمپ کارڈ میں ڈھال لیا ہے اور امریکیوں کو اوئے توئے سٹائل یا سلطان راہی قسم کی سیاست سے متعارف کروا کے کروڑوں امریکیوں کی اندرون چھپی ہوئی بڑھک باز جبلت کو اُبھارا ہے۔
مسلمان امریکی ووٹ بینک کا آٹھ فیصد ہیں۔ مگر ٹرمپ کھل کے کہتا ہے کہ جب تک مسلمانوں کے بارے میں ہم یہ طے نہیں کر لیتے کہ وہ کس قماش کے لوگ ہیں تب تک ان کے امریکا میں داخلے پر پابندی ہونی چاہئیے۔ امریکا میں مسلمان ایک مسئلہ ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ ٹاور تباہ کرنے والے سویڈن سے تو نہیں آئے۔ امریکی معیشت کے تحفظ کے لیے ٹرمپ تجویز کرتا ہے کہ چینی مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔
بقول ٹرمپ "میں پوری زندگی لالچی رہا لیکن اب میں اپنے لیے نہیں بلکہ امریکا کے لیے دولت جمع کرنے کا لالچی ہوں۔ میں صدر بن گیا تو سب سے پہلے امریکا کے بارے میں سوچوں گا۔ ہماری خارجہ پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ دوسرے انتظار ہی کرتے رہیں کہ اب امریکا اگلا قدم کیا اٹھانے والا ہے"۔
ٹرمپ خواتین کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرتا رہا جو عام طور سے مردوں کی محفلوں میں ہی قابلِ قبول سمجھی جاتی ہے۔ مگر چینلز کی ریٹنگ کی لالچ زندہ باد۔۔ مثلاً ہیلری کلنٹن کے بارے میں اس نے جب ہیلری صدارتی امیدوار تھی تب ٹویٹ کیا "جو اپنے شوہر کو مطمئن نہ کر سکے وہ امریکا کو کیا مطمئن کرے گی"۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکی ووٹروں کے کم وبیش ہر غیر سفید فام حصے اور خواتین کو ناراض کرنے کے باوجود وائٹ امریکن اسے صدارتی منڈپ تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے سب سے زیادہ خوشی دو لوگوں کو ہوئی ہے۔ ایک ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرا ہمارا مرشد۔
ڈسکلیمر: پاکستان میں کسی سیاسی کردار سے مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔